88

اس میں کیا کمال کہ میرے

Spread the love

تحریر
عنابِغ علی
اس میں کیا کمال کہ میرے پاس فلاں گاڑی فلاں گھر اتنا بیک بیلنس یا میرے والد فلاں افسر یا بزنس کے مالک ہیں! یہ سب تو بائیولوجیکل ارتقاء کے ثمرات ہیں ۔اصل تیس مار خان وہ ہیں جو اپنے علاوہ کی محرومیاں محسوس کر سکتے ہیں اور انکے سدباب کے لیے جہت میں لگے رہتے ہیں ۔ یقینن پاکستان چیریٹی کرنے میں ٹاپ آف لسٹ ہے مگر پھر بھی بھوک اور افلاس بڑھ رہی ہے۔ کیوں؟
اس ویڈیو سے پیغامات اخذ کیجیے، دیکھیے، یہ کارٹون کیجانب رغبت امیری غریبی نہیں دیکھتی، یہ اپنا پورا وجود لیے ننھے قلوب میں اترتی ہے۔ اسی طرح، دنیاوی ترقی کا چارم بھی ہر فرد میں پنپتا ہے. معاملہ کچھ یوں ہے کہ میں کئی عرصے سے درخواست کرتا چلا آ رہا ہوں کہ “Human Rights ” ایک نامکمل اصطلاح ہے. فقط حقوق کا پرچار انکے حصول کے لیے کافی نہیں۔ اسے “Human rights and obligations” ہونا چاہیے. کیونکہ ہر حق کسی دوسرے کا فرض ہے، آپ کچھ بھی اٹھا کر دیکھ لیجیے. خواہ وہ عوام-حکومت کا ریلیشن ہو یا افراد کا آپس میں۔ انسانی فرائض کی آگاہی اور انہیں enforce کرنے پر اگر زور دیا جائے تو قوی امکان ہے کہ human rights خود بخود پورے ہوتے دکھائی دیں گے. ویڈیو میں ایک دیوار پر حج و عمرہ لکھا دکھائی دے رہا ہے اور دوسری جانب کسمپرسی کا شکار بچے انٹرٹینمنٹ کی انرجی پوری کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جنکا گناہ صرف اتنا ہے کہ وہ فلاں کے بچے نہیں ۔ یاد رکھیے، جو فلاں کے بچے نہیں، وہ ہم سب کے بچے ہیں ۔ اور یہی اس کائنات کا مقصد ہے۔ بعید ہے کہ ہم سے ہمارے بچوں سے متعلق اتنی پوچھ گچھ نہ ہو مگر ان بچوں کے ہاتھ ہمارے گریبانوں تک ضرور ہوں گے. اپنے ارد گرد ایسے نونہالوں کی ذمہ داریاں لیجیے، چپے چپے پر میسر ہیں یہ۔، انہی تعلیم دلوائیے اپنے بچوں جیسی، انکی تربیت اور ہُنر کا بند و بست کیجیے، انہیں نوکریاں دے یا دلوا سکیں تو دلوائیے، کاروبار کروق سکیں تو بسم اللہ کریں،اپنی دکان کے باہر ایک اڈا لگا دیجیے اور سرپرستی کیجیے، دیکھیے کہاں سے کہان پہنچ جائے گی نیکی بھی اور اکانومی بھی، صرف ماہانہ خرچ لگا دینا کافی نہیں، چیریٹی کے باوجود عدم استحکام کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ charity of skill نہیں ہو رہی۔

اشفاق احمد فرماتے تھے، “ذاتی جیب سے نہیں دینا، بلکہ رب کے دِیے ہوئے میں سے دینا ہے” ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں