88

میٹاورس (Metaverse) کیا ہ

Spread the love

میٹاورس (Metaverse) ایک ایسی ورچوئل یا جدید دنیا کا نام ہے کہ جس کیلئے دنیا کے امیر ترین نوجوانوں میں سرفہرست اور فیس بُک کے بانی مارک زکر برگ نے اپنی کمپنی کا نام تک تبدیل کردیا ہے۔ فیس بُک کے اس اقدام سے ’میٹاورس‘ ٹیکنالوجی کی اہمیت اور مارک زکر برگ کی اس حوالے سے سنجیدگی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ فیس بُک کا اب نیا نام ’میٹا‘ (Meta) ہے، البتہ سوشل پلیٹ فارم کیلئے ’فیس بُک‘ نام ہی استعمال کیا جائے گا۔
جو لوگ اِس ٹیکنالوجی (میٹاورس) کو جانتے ہیں وہ اِسے صرف ایک ایسی ورچوئل دنیا کے طور پر لے رہے ہیں جس میں ہم 3Dورچوئل گلاسز کا استعمال کر کے ایک دوسرے سے بات چیت کر سکیں گے۔ لیکن یہ ٹیکنالوجی صرف یہیں تک محدود نہیں، بلکہ اِس کی سرحدیں لامحدود ہیں۔
ایسا سمجھ لیں کہ آج جو ہم انٹرنیٹ استعمال کر رہے ہیں، اُس میں روح پھونک دی جائے گی اور یہ زندہ ہو جائے گی۔ ’میٹاورس‘ ایک ایسی 3Dدنیا کا نام ہے کہ جہاں نہ صرف ہم ہر وہ چیز کر سکیں گے جو حقیقی دنیا میں کر رہے ہیں، بلکہ وہ زندگی بھی جی سکیں گے جس کا ہم صرف خواب دیکھتے آئے ہیں۔ ’میٹاورس‘ کی صورت میں آئندہ چند برسوں میں اے آئی یعنی مصنوعی ذہانت ٹیکنالوجی پر مشتمل ایک ایسا پلیٹ فارم تشکیل دیا جائے گا، جس میں ہم 3Dگلاسز کا استعمال کر کے ایک ایسی ’ورچوئل دنیا‘(Virtual world) میں چلیں جائیں گے ، جسے ’میٹاورس‘ کا نام دیا گیا ہے۔
اس ’ورچوئل دنیا‘ میں ہر چیز مصنوعی ہوگی، یعنی ہرصارف کا ایک ’اواتار‘ (Avatar)ہو گا، جو اِس ورچوئل دنیا میں آپ کی نمائندگی (represent) کرے گا۔ لیکن اِس نظام کو بہتر طریقے سے چلانے کیلئے فیس بُک کو ایک انتہائی طاقتور سپر کمپیوٹر کی ضرورت ہے۔
یہی وجہ ہے کہ فیس بُک ایک جدید ترین سپر کمپیوٹر پر کام کر رہا ہے۔ فیس بُک کا یہ سُپر کمپیوٹر امریکی اور چینی دونوں ممالک کے آرٹی فیشنل انٹیلی جنس سُپر کمپیوٹرز سے 10 گنا زیادہ طاقتور ہوگا۔ہزاروں پروسیسرز سے بنائے گئے اس سپر کمپیوٹر کو ٹیکسٹ، امیجز اور ویڈیوز کا ایک ساتھ تجزیہ کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا اور اس سے نئے اگمینٹڈ رئیلٹی ٹولز تیار کیے جائیں گے ۔
اس کمپیوٹر میں مصنوعی ذہانت پر مبنی ایک ایسا سسٹم تیار کرنے کی صلاحیت بھی ہو گی جو دیگر چیزوں کے ساتھ ساتھ کئی مختلف زبانوں میں بولنے والے لوگوں کو ایک دوسرے کو حقیقی وقت میں سمجھنے کی اجازت دے سکے گا۔ یعنی اگر آپ صرف اُردو زبان بولنا چاہتے ہیں تو کوئی مسئلہ نہیں آپ چینی ، جاپانی، افریقی، امریکی ، حتیٰ کہ تمام ممالک کے لوگوں سے بات کر سکیں گے۔ مطلب یہ کہ آپ اُردو بولیں گے، لیکن آپ کی بات ترجمہ ہو کر اُنہیں اُن کی زبان میں سنائی دے گی ۔
میٹاورس تو صرف ایک ’بیج‘ ہے، ایک ایسی بنیاد جو ’ورچوئل رئیلیٹی‘(Virtual reality) کے مستقل کا تعین کرے گی۔ یہ ایک ایسی دنیا ہو گی کہ جہاں موجود ہر چیز کو ہم چھو سکیں گے، اِسے محسوس کر سکیں گے۔ ہم یہاں دفاتر قائم کر کے گھر بیٹھے کام کر سکیںگے۔ گھر بیٹھے سینما میں جا کر فلمیں دیکھ سکیں گے، دوستوں سے گپ شپ کر سکیں گے، شاپنگ کر سکیں گے، ویڈیو گیمز کھیل سکیں گے، دنیا کے مختلف تفریحی مقامات کی سیر کرسکیں گے، جو شاید مہنگائی کے اِس دور میں ہر کسی کیلئے ممکن نہیں۔ میٹاورس کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ ’ورچوئل دنیا‘ کے حوالے سے ہمارے تجربے (experience) کو اِس حد تک بدل دے گی کہ ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔ یعنی ہم مکمل طور پر ایک نئی دنیا میں ٹرانسپورٹ ہو جائیں گے۔
فیس بُک کی طرف سے ایسے جدید ترین VRگلاسز پر کام ہو رہا ہے جن میں جدید اور مہنگے3Dلینز استعمال کیے جائیں گے ، اِن گلاسز کو پہن کر آپ یہ تک بھول جائیں گے کہ آپ حقیقی دنیا میں ہیں یا کسی اور دنیا میں چلے گئے ہیں۔ یعنی اِس ورچوئل دنیا میں ہر چیز حقیقی دکھائی دے گی۔ علاوہ ازیں فیس بُک ایسے دستانوں (gloves)پر بھی کام کر رہی ہے، جنہیں پہن کر آپ ورچوئل دنیا کی چیزوں کو چھو سکیں گے، اپنے لمس سے اُنہیں محسوس کرسکیں گے۔ ممکن ہے آئندہ کچھ عرصے میں ایسی ٹیکنالوجی بھی آ جائے کہ آپ ورچوئل دنیا میں جا کر مختلف کھانوں کے ذائقوں کو بھی چکھ سکیں۔ اِس دنیا میں آپ اُن کپڑوں کو پہن کر دیکھ سکیں گے جنہیں آپ خریدنا چاہتے ہیں، یعنی آپ گھر بیٹھے ہی یہ دیکھ سکیں گے کہ جو کپڑے آپ خریدنا چاہتے ہیں وہ کیسے دکھائی دیتے ہیں۔
’میٹاورس‘ کی تیاری کے حوالے سے فیس بُک کی سنجیدگی کا اندازہ اِس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ کمپنی نے اس ورچوئل دنیا (metaverse) کی تیاری کیلئے 10 ہزار قابل انجینئرز اور ڈویلپرز کی ٹیم بھرتی کر لی ہے۔ علاوہ ازیں اِس دنیا کی تیاری میں تیزی لانے کیلئے 25کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری اُن کمپنیوں میں کی ہے جو میٹاورس کے کچھ حصوں کی تیاری میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔
اگرچہ ’میٹاورس‘ کوئی نہیں اصطلاح نہیں ہے۔ میٹا ورس کا لفظ سب سے پہلے سائنس فکشن مصنف نیل سٹیفنسن نے اپنے 1992 میں لکھے گئے ناول ’سنو کریش‘ میں استعمال کیا تھا۔انہوں نے اپنے ناول میں یہ تصور پیش کیا تھا کہ ایک جدید چشمہ پہن کر انسان ایسی دنیا میں چلا جاتا ہے، جو حقیقی دنیا سے ہی ملتی جلتی ہے، لیکن یہاں ناممکنات کو ممکنات میں تبدیل کیا جا سکتا ہے، یہاں ہر وہ چیز کی جاسکتی ہے جو انسان سوچ سکتا ہے۔ انہوں نے اپنے ناول میں یہ تصور تک پیش کیا تھا کہ اِس ’ورچوئل دنیا‘ یا میٹاورس میں انسان نئی آنے والی گاڑیوں کے ماڈلز میں بیٹھ کر اُن کی ٹیسٹ ڈرائیور بھی لے سکتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ آج سے چند روز قبل ہی ’سونی‘(sony) کی جانب سے ایسے ہی فیچر پر کام کرنے کا عندیہ دیا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ اُن کے ’پلے سٹیشن‘ (play station)میں آپ ورچوئل گلاسز پہن کر گاڑیوں کے نئے ماڈلز کا معائنہ کرسکیں گے اور اُن کی ٹیسٹ ڈرائیور بھی لے سکیں گے۔
’میٹاورس‘ آئندہ برسوں میں ’ای کامرس‘ یعنی آن لائن شاپنگ کو نہ صرف جدید دور سے روشناس کرائے گی، بلکہ آن لائن چیزیں فروخت کرنے والوں اور خریداری کرنے والوں کیلئے بھی بڑا سود مند ثابت ہو گا۔ دنیا کی دوسری امیر ترین شخصیت جیف بیزوس سب سے بڑی ای کامرنس ویب سائٹ ’ایمازون‘کی وجہ سے شہرت رکھتے ہیں اور اُنہوں نے اپنی دولت کا ایک بڑا حصہ بھی ’ایمازون سے ہی کمایا ہے۔ اسی بات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے مارک زکر برگ نے بھی ’فیس بُک‘ میں ’ای کامرس‘ کا فیچر متعارف کروا تھا، تا کہ وہ زیادہ سے زیادہ پیسہ کما سکیں۔ فیس بُک آفیشلز کے مطابق ’میٹاورس‘ میں ’ای کامرس‘ کیلئے جدید ترین فیچرز خصوصی طور پر متعارف کروائے جائیں گے۔ #Pakistan #awazekhalaq #lahore

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں