63

سانحۂ مری، NDMA کے قانون پر مکمل عملدرآمد کیا جائے : اسلام آباد ہائیکورٹ کا حکم

Spread the love

اسلام آباد ( نیوز رپورٹ )اسلام آباد ہائی کورٹ نے سانحۂ مری کی تحقیقات کی درخواست نمٹا دی اور حکم دیا ہے کہ این ڈی ایم اے کے قانون پر مکمل عمل درآمد کیا جائے، کیس کا تحریری فیصلہ بھی جاری کریں گے۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے سانحۂ مری کی تحقیقات اور ذمے داروں کے خلاف کارروائی کے لیے مری کے رہائشی کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے اپنے حکم میں یہ بھی کہا ہے کہ آبزرو کریں گے، کچھ ہوا تو ذمے دار نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ کمیشن ہو گا۔دورانِ سماعت وفاق کی جانب سے اٹارنی جنرل خالد جاوید، ایڈیشنل اٹارنی جنرل قاسم ودود، مری کے رہائشی حماد عباسی

کی جانب سے دانش اشراق عباسی ایڈووکیٹ، نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) سے ممبر پلاننگ ادریس محسود عدالت میں پیش ہوئے۔اٹارنی جنرل نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو بتایا کہ سانحۂ مری کے ذمے داروں کے خلاف کارروائی شروع ہو چکی ہے، این ڈی ایم اے نے سب کو گائیڈ لائنز دے رکھی ہیں، نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ کمیشن کی میٹنگ کی این ڈی ایم کی جانب سے سفارش کی گئی ہے، وہ ابھی ہونا باقی ہے۔انہوں نے بتایا کہ ایک ہی مسئلہ تھا کہ این ڈی ایم اے کے قانون پر عمل نہیں ہو رہا تھا، سانحۂ مری کے ذمے داروں کے خلاف کارروائی شروع ہو چکی ہے۔عدالت نے درخواست گزار کے وکیل دانش اشراق سے سوال کیا کہ کیا آپ مطمئن ہیں؟پٹیشنر کے وکیل نے کہا کہ صرف افسران کو عہدوں سے ہٹانا کافی نہیں، ایکشن بھی ہونا چاہیے۔چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے سوال کیا کہ اسی قانون کے تحت معاوضہ بھی دینا تھا، کیا یہ دے چکے ہیں؟ اب بتا دیں اس میں کورٹ مزید کیا کرے، آپ کی درخواست پر عمل ہو گیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ قانون کے مطابق تو سارا کام ڈسٹرکٹ ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کا تھا، یہ بات طے ہو گئی ہے کہ پالیسی میکنگ باڈی کی کبھی میٹنگ نہیں ہوئی، تمام ذمے داری پنجاب کے سربراہ کی ہے، یہ پٹیشن آنے تک قانون پر عمل درآمد نہیں ہو رہا تھا، اب اس سے متعلق ایکشن بھی لے لیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ عدالت نے قانون کو دیکھنا ہے لیکن صوبوں میں بھی اس قانون کے تحت ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز کی میٹنگز نہیں ہوئیں، اگر کچھ ہوا تو قانون کے مطابق وہ سب ذمے دار ہوں گے۔چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے مزید کہا کہ صوبوں میں الگ سے اتھارٹیز بھی بنی ہوئی ہیں، یہ ان کی بھی ذمے داری ہے، عدالت اس پر ہدایت دے گی تاکہ مستقبل میں کچھ ایسا ہو تو ذمے داری فکس ہو۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں