لندن (مانیٹرنگ ڈیسک) ویسٹ منسٹر مجسٹریٹ کی عدالت نے قرار دیا ہے کہ نیشنل کرائم ایجنسی کی شہباز شریف اور سلیمان شریف کی منی لانڈرنگ کی انوسٹی گیشن کے حوالے سے مکمل فائل پاکستان کے اثاثہ ریکوری یونٹ (اے آر یو) کو جاری کی جا سکتی ہے۔ ڈسٹرکٹ جج گوڈفری نے عدالت میں اے آر یو کی جانب سے دائر کردہ درخواست پر فیصلہ سنایا ہے۔پاکستان کے انگریزی جریدے نے اس ضمن میں ایک خبر شائع کی تھی کہ این سی اے نے شہباز شریف اور ان کے بیٹے کیخلاف ہائی پروفائل انوسٹی گیشن ختم کر دی ہے کیونکہ منی لانڈرنگ، مجرمانہ غفلت اور سرکاری عہدے کے غلط استعمال کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ جب یہ مکمل فائل جاری کی جائے گی تو اس سے جریدے میں شائع ہونے والی خبر کی تصدیق ہو جائے گی۔ ڈسٹرکٹ جج گوڈفری نے قرار دیا ہے کہ انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کیلئے یہ ضروری تھا کہ یہ فائل جاری کی جائے، جریدہ پہلے ہی اس کے کچھ حصے شائع کر چکا ہے اور اس کے کچھ حصے پہلے ہی پبلک ڈومین میں آتے ہیں جبکہ تحقیقات کے کچھ حصے عدالت میں نجی طور پر پیش نہیں کیے گئے تھے۔ جریدے نے خبر دی تھی کہ اے آر یو دسمبر 2019ء سے لیکر نومبر 2021ء تک کیس بند ہونے تک این سے اے کے تحقیقات کاروں کے ساتھ مل کر کام کر رہا تھا۔ جج نے قرار دیا ہے
کہ یہ مناسب ہے کہ این سی اے کی مکمل فائل جاری کر دی جائے لیکن جج نے یہ بھی حکم دیا ہے کہ شریف فیملی، ذوالفقار احمد اور این سی اے کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ فائلوں کے کچھ ایسے حصے اگر چھپانا چاہیں تو چھپا (Redact) سکتے ہیں جن میں نجی معلومات موجود ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ کیس کی مکمل فائل شریف فیملی کے وکیل اور این سی اے کے درمیان چھپائے جانے والے حصوں پر اتفاق کے بعد فائل جاری کر دی جائے گی۔ اپنی درخواست میں اے آر یو کے وکیل بیرسٹر ضیا نسیم اور اسلام آباد میں پی ایم آفس میں قائم اے آر یو کے ماہرین قانون نے عدالت کو بتایا تھا کہ اے آر یو آفکام میں اس نمائندے کیخلاف شکایت درج کرانا چاہتا ہے کیونکہ اس نمائندے کی جانب سے اہم حقائق کے حوالے سے غلط رپورٹنگ کی ہے۔ اے آر یو کی درخواست میں کہا گیا تھا کہ شکایت کے میرٹس کا جائزہ لینے کیلئے ضروری ہے کہ این سی اے کی جانب سے جو دستاویزات عدالت میں جمع کرائی گئی ہیں وہ اے آر یو کو بھی حاصل ہوں کیونکہ صحافی نے انہی دستاویزات کا حوالہ دے کر رپورٹ شائع کی تھی۔ عدالت میں شریف فیملی کے وکیل اور ذوالفقار احمد نے اعتراض کیا تھا کہ مکمل رپورٹ جاری نہ کی جائے کیونکہ ان میں نجی معلومات موجود ہیں اور یہ معلومات انوسٹی گیشن سے جڑی نہیں ہے۔ اس نمائندے نے عدالت میں اپنی نمائندگی خود کی اور ڈسٹرکٹ جج کو آگاہ کیا کہ جریدے کی رپورٹ سیکٹروں صفحات میں سے صرف 6؍ صفحوں پر مشتمل تھی، یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ آر یو کو فائل تک رسائی کیوں درکار ہے حالانکہ وہ پبلک ڈومین میں موجود حقائق کی بنیاد پر کیس دائر کر سکتا ہے۔ اس نمائندے نے دلیل دی کہ یہ فیصلہ کرنا عدالت کا کام ہے کہ اے آر یو کو مکمل فائل ملنا چاہئے یا نہیں۔ این سی اے کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں وہ غیر جانبدار ہے، عدالت جو چاہے فیصلہ سنا سکتی ہے۔ بیرسٹر ضیا نسیم نے یہ بھی بتایا کہ این سی اے شہباز ریف اور سلیمان کے کیس کے معاملے پر 7؍ دسمبر 2019ء کو اے آر یو کے ساتھ مکمل رابطے میں تھا، یہ بات این سی اے کے ڈیوڈ اسکروٹن کی جانب سے لندن میں نیب کے سینئر عہدیدار کے ساتھ ملاقات سے قبل اور این سی اے کی جانب سے اکائونٹس منجمد کرنے کی باضابطہ درخواست کرنے سے دو ہفتے قبل کی ہے۔ جج نے یہ فیصلہ بھی سنایا کہ مکمل فائل کے مندرجات چھپانے (Redacted) کے بعد اس نمائندے اور ایوننگ اسٹینڈرڈ کے ہوم افیئرز ایڈیٹر مسٹر مارٹن بینتھم کو بھی فراہم کی جائے۔