51

بھارت 5 اگست کا اقدام واپس لے تو بات چیت کے لیے تیار ہیں: وزیر اعظم

Spread the love

اسلام آباد( بدلو نیوز ) وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں پہلے سے ہی 30 لاکھ افغان مہاجرین موجود ہیں، ہم مزید پناہ گزینوں کے متحمل نہیں ہوسکتے۔

تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم عمران خان نے فرانسیسی جریدے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ فغانستان کے معاملے پر علاقائی ممالک کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں، افغان معاملے پر سب کے ساتھ مل کر مشترکہ طور پر اقدامات کرنا چاہتے ہیں۔
وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ 4 کروڑ عوام کا مستقبل بچانا ہے تو افغان حکومت کو تسلیم کرنا ہوگا، افغانستان میں اس وقت کوئی بھی تنازعہ نہیں ہے، ہم تمام علاقائی ممالک سے مشاورت کر رہے ہیں۔ پاکستان افغانستان کو تنہا تسلیم نہیں کر سکتا۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان حکومت سے عالمی دنیا کے دو مطالبے ہیں، دنیا افغانستان میں جامع حکومت اور انسانی حقوق کی پاسداری چاہتی ہے۔ افغانستان کے عوام بیرونی مداخلت سے نفرت کرتے ہیں۔ مغربی طرز کے خواتین کے حقوق کی پاسداری افغانستان میں ممکن نہیں۔

وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان نے ہی افغانستان سے اسامہ بن لادن کو حوالے کرنے کا مطالبہ کیا تھا، تاہم حوالگی کے مطالبے پر افغانستان نے واضح انکار کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان میں تین گروپ سرگرم تھے، پہلا ٹی ٹی پی، دوسرے بلوچ علیحدگی پسند اور تیسرا داعش۔ طالبان کہتے ہیں کہ پاکستان کے خلاف ان کی سرزمین استعمال نہیں ہوگی، ہمیں بھروسہ ہے۔

وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان میں پہلے سے ہی 30 لاکھ افغان مہاجرین موجود ہیں، خدشہ ہے پاکستان میں پناہ گزینوں کا سیلاب امڈ آئے گا، پاکستان مزید پناہ گزینوں کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ انہوں نے کہا کہ فرانسیسی صدر میکرون سے مل کر دو طرفہ تعلقات پر بات کرنا چاہتا ہوں، دو بار ان سے فون پر بات چیت ہوچکی ہے۔ پاکستان کی نصف برآمدات یورپ کو جاتی ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے تعلقات خراب کیے، مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر بے چینی پائی جاتی ہے۔ بھارت کی حکومت کا نظریہ ہی نفرت کا ہے۔ ایسی حکومت کا سامنا ہے جو ہندو توا نظریے سے متاثر ہے۔

انہوں نے کہا کہ بھارت سے پڑوسیوں جیسے تعلقات چاہتے ہیں مگر واحد وجہ مسئلہ کشمیر ہے، ہم نے بھارتی جہاز کو مار گرایا اور ان کے پائلٹ کو بھی واپس بھیجا جس کا مقصد یہ تھا کہ جارحیت نہیں چاہتے تھے۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات 5 اگست کا اقدام واپس لینے سے مشروط ہے، بھارت 5 اگست کا اقدام واپس لے لے ہم بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ بھارت کو کشمیر کی حیثیت بحال کرنا ہوگی، جو اس نے کیا وہ عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ سنکیانگ بھی چین کا حصہ ہے یہ کوئی متنازع علاقہ نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے امریکا کے ساتھ بہت اچھے تعلقات ہیں، امریکا کے ساتھ کچھ معاملات پر ہمیشہ ردعمل دیتا رہا ہوں، ہمیشہ امریکا سے کہا کہ افغان مسئلے کا فوجی حل نہیں ہے۔ امریکا کے افغانستان میں مقاصد واضح نہیں تھے۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کا حصہ نہیں بننا چاہیئے تھا، پاکستان اور امریکا کے مشترکہ مفادات ہیں، امریکا پہلے القاعدہ سے نمٹنے کے لیے افغانستان آیا تھا، افغان بحران بے قابو ہوا تو یہ پوری دنیا کو پھر لپیٹ میں لے لے گا۔

انہوں نے کہا کہ امریکا پر الزام نہیں لگاتا، ہمارے عوام کے مفادات کا تحفظ ملکی قیادت کی ذمہ داری تھی۔ میں سمجھتا ہوں 1991 کے بعد امریکا نے پاکستان کو استعمال کیا، پاکستان میں پہلی بار کلاشنکوف کا کلچر آیا۔ جارج بش نے بھی کہا تھا پاکستان کو کبھی تنہا نہیں چھوڑیں گے مگر انہوں نے پھر وہی کیا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں