اسلام آباد / کراچی / لاہور(بدلو نیوز ) پاکستان کے سیاسی و سماجی حلقوں کے بعد سندھ، لاہور اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشنز نے بھی پیکا ترمیمی آرڈیننس کو مسترد کردیا ہے۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے پیکا ترمیمی آرڈیننس کے علاوہ اراکین پارلیمنٹ، وزراء اور پبلک آفس ہولڈرز کو انتخابی مہم چلانے کی اجازت دینے کے آرڈیننس کو بھی چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے اپنے اعلامیے میں کہا ہے کہ پیکا آرڈیننس کے ذریعے حکمران اشرافیہ سیاسی مخالفین کو خاموش کرانا چاہتی ہے۔ اس آرڈیننس کا مقصد اظہار رائے کی آزادی کو دبانا ہے۔ اس اعلامیے میں پیکا آرڈیننس کو انتہا پسندی کا عکاس قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پیکا جیسے ظالمانہ قانون بنانے والے شیشے کے گھر میں بیٹھ کر پتھر پھینک رہے ہیں جبکہ ملک میں ایسی پابندیوں کی مثال ظالمانہ دور آمریت بھی نہیں ملتی۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی پریس ریلیز میں اصلاحِ معاشرہ کےلیے تعمیری اور مثبت تنقید کو ضروری قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ جعلی خبروں کا تدارک ضروری ہے لیکن آئین سے متصادم قانون سازی کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
اسی پریس ریلیز میں مزید کہا گیا ہے کہ اراکین پارلیمنٹ، عوامی عہدہ رکھنے والوں کو انتخابی مہم کی اجازت فراہم کرنے کا آرڈیننس قبل از وقت انتخابات دھاندلی کو فروغ دے گا۔ یہ نہ صرف آئین سے متصادم ہے بلکہ یہ آرڈیننس انتخابی عمل کو بری طرح متاثر کرے گا۔
لاہور ہائی کورٹ بار کی قیادت نے پیکا ترمیمی آرڈیننس 2022 کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ صحافیوں کی آواز دبانے اور کالی بھیڑوں پر تنقید روکنے کے لیے آرڈیننس جاری کیا گیا، حکومت وقت نے کالے قانون کے ذریعے عوام الناس کے بنیادی حقوق پر ڈاکا ڈالنے کی کوشش کی۔
ادھر سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے بھی ایک متفقہ قرارداد کے ذریعے پیکا ترمیمی آرڈیننس 2022 کو ’’کالا قانون‘‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کا مقصد اقتدار میں موجود ’’مقدس گایوں‘‘ کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔ واضح رہے کہ پیکا ترمیمی آرڈیننس کو چوہدری سعید ظفر ایڈووکیٹ پہلے ہی لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کرچکے ہیں جبکہ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ (پی ایف یو جے) نے بھی عادل عزیز قاضی ایڈووکیٹ کے توسط سے پیکا قانون میں صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ترمیم کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کیا ہوا ہے۔
52