انگیخت: امتیاز عالم
جس رات وزیراعظم عمران خان ماسکو پہنچے، اُن کے صبح اُٹھنے سے پہلے روسی صدر پیوٹن نے ”سپیشل ملٹری آپریشن“ کے نام پر یوکرین پر ہر طرف سے حملہ کردیا جو مشرقی یوکرین کے ڈوب باس کے روسی بولنے والے علاقے تک محدود نہ رہا۔ پاکستانی وفد مشکل میں پھنس گیا کہ کرے تو کیا، بچگانہ غیر جانبداری مشکل میں پڑگئی۔ روس یوکرین تاریخ اپنے اوریجن میں اتنی باہم پیوست ہے کہ روس کرائیوین رُس کہلایا ہے۔ 1917 کے روسی بالشویک
انقلاب کے بعد یوکرین 1919 میں سوویت یونین میں شامل ہوگیا۔ دوسری جنگ عظیم میں سوویت یونین اور امریکہ و برطانیہ نے مل کر جرمن نازی ازم اور فسطائیت کے اتحاد ثلاثہ کو شکست دی جس میں کلیدی کردار سوویت یونین نے ادا کیا اور جرمنی ، یوکرین اور مشرقی یورپ کے کئی ممالک کو ہٹلر کے قبضے سے آزاد کروایا۔ جب 1991ءمیں سوویت یونین ٹوٹا تو ایک ریفرنڈم کے ذریعہ یوکرین بھی ایک علیحٰدہ ریپبلک بن گیا۔ سوویت یونین کے خاتمہ پر نیٹو کے فوجی بلاک کے مقابل وارسا پیکٹ کا دفاعی معاہدہ بھی انجام کو پہنچا، یوں یورپ میں سرمایہ دارانہ کیمپ اور سوشلسٹ کیمپ کی تقسیم انجام کو پہنچی۔ لیکن حالات نے ایک خوفناک موڑ لیا اور امریکہ واحد سپر پاور بن کر دنیا پہ چھا گیا اور مغربی یورپ کے ساتھ ساتھ مشرقی یورپ کی وارسا پیکٹ کی رکن ریاستیں بھی نیٹو میں شامل ہوگئیں۔ یوں روس کے گرد گھیرا تنگ ہوتا چلا گیا، حالانکہ وارسا پیکٹ کے خاتمے پر توقع یہ کی جارہی تھی کہ یورپ متحد ہوجائے گااور نیٹو بھی انجام کوپہنچے گا۔ مگر واحد سپر پاور نے نیو کلیئر سپر پاور روس سے خوفزدہ مغربی و مشرقی یورپ کو نیٹو میں باندھے رکھا۔ روس
یوکرین کا حالیہ تنازعہ جنوب مشرقی یوکرین (ڈون باس) جہاں روسی اکثریت ہے اور مغربی حصے کو یوکرینیز کے مابین نسلیاتی تفریق کی بنیاد پر اس وقت اٹھ کھڑا ہوا جب 21 نومبر 2013 کو یوکرینی صدر یانوکووچ نے یورپی یونین کے ساتھ ایسوسی ایشن معاہدہ معطل کردیا اور دو روز بعد روس اور یوکرین میں سرحدی جنگ چھڑگئی۔ کرائمیاجہاں بحیرہ اسود(Black Sea) میں سوویت یونین کی بڑی بندرگاہ سیواستوپول واقع ہے ( جسے 1954 میں سوویت یونین کے یوکرینی نژاد صدر فرو شچوف نے یوکرین کے حوالے کردیا) پر 18 مارچ 2014 کو ایک ریفرینڈم کے ذریعہ اپنا پرانا قبضہ بحال کرلیا۔ اسی دوران یوکرینی صدر یانکووچ جنہیں جنوب مشرقی یوکرین کے روسی لوگوں کی حمایت حاصل تھا کے خلاف تحریک مواخذہ کامیاب ہوگئی اور یوکرین میں ”یورو میڈین“ مظاہرے پھوٹ پڑے جو یورپی یونین کے ساتھ تعلق جوڑنا چاہتے تھے، جس کے باعث یوکرین تقسیم ہوکر رہ گیا۔ خود یوکرین میں دو سیاستدانوں یانوکووچ اور تاموشینکو کے خاندانوں اور ان کی جماعتوں میں خوفناک لڑائی چل نکلی۔ اسی دوران ڈون باس کی روسی یوکرین جنگ میں ڈومینٹکس اور لوہانسک نے اپنی اپنی خود مختاری کا اعلان کردیا۔ اس خانہ جنگی میں بیلا روس کے دارالحکومت منسک میں سہ طرفہ دو معاہدے ہوئے جس کے تحت ڈومینٹکس اور لوہانسک کو علاقائی مقامی خود مختاری دی جانی تھی جس کی گارنٹی آرگنائزیشن آف سکیورٹی اینڈ کوآپریشن ان یورپ (OSCE) نے دی۔ لیکن اس تنظیم اور خاص طور پر جرمنی اور فرانس نے معاہدوں پر عملدرآمد کے لیے وہ کردار ادا نہ کیا جو کہ یہ معاہدہ تقاضہ کرتا تھا۔ روسی صدر پیوٹن
اس دوران یورپ میں ”ناقابل تقسیم سلامتی“ کے نئے سکیورٹی سٹرکچر پہ زور دیتے رہے، لیکن برطانیہ اور امریکہ نے ایسے نہ ہونے دیا، اُلٹا ان کی کوشش تھی کہ یوکرین بھی نیٹو میں شامل ہوجائے جس کی پرزور حمایت میں یوکرین کے موجودہ صدر ولادی میر زولینسکی میدان میں اتر آئے۔ بجائے اس کے کہ منسک کے معاہدوں پر عمل کرایا جاتا، اُلٹا یوکرین کو یورپی یونین اور نیٹو میں شامل کرنے کی کوششیں تیز کردی گئیں۔ مشرقی یورپ کی سابقہ سوویت ریپبلکس کے نیٹو اور یورپی یونین میں شامل ہونے کے بعد روس کے اپنی سلامتی کیلئے خطرات بڑھ گئے اور اس نے یہ ریڈ لائن کھینچ دی کہ جیارجیا اور یوکرین کسی صورت میں نیٹو میں شامل نہیں ہوں گے۔ یوں روس نے یوکرین پر حملہ کردیا ہے اور اس کا ارادہ یوکرین کی دفاع قوت ختم کرنے اور نیٹو میں یوکرین کی شرکت کا دروازہ بند کرنے ، جنوب مشرقی یوکرین کی دو ”نو آزاد“ ریاستوں کو تسلیم کرنے اور مغربی یوکرین میں ایک باجگذار سیاسی نظام کی تشکیل کرنا ہے۔ یوکرین پہ قبضہ کو صدر پیوٹن نے رد کردیا ہے۔ اُدھر یوکرینی صدر زیلنسکی امریکہ اور نیٹو ممالک سے مایوس ہوچکے ہیں کہ اُنہیں آگے
کر کے تنہا چھوڑدیا گیا ہے اور وہ روس کے ساتھ بات چیت پر تیار ہوگئے ہیں۔ اختلاف اب یہ ہے کہ بات چیت کہاں ہو، منسک میں یا وارسا میں۔ یوکرین کو روسی شرائط ماننا پڑیں گی یا پھر ایک طویل خانہ جنگی اس کا مقدر بنے گی اور روس اس میں پھنس کر رہ جائے گا جو کہ سی آئی اے چاہتی ہے۔
اب کہا جارہا ہے کہ جس طرح کیوبا میزائل بحران جس میں امریکی دھمکی پر روس کو امریکہ کے پچھواڑے میں اپنے میزائل تنصیب کرنے سے پیچھے ہٹنا پڑا تھا، اُسی طرح امریکہ اور نیٹو روس کی ایٹمی دھمکی پہ یوکرین کی زمینی مدد سے پیچھے ہٹ گئے ہیں۔ البتہ انہوں نے روس کے خلاف اقتصادی پابندیوں کا اعلان کردیا ہے۔ اب یورپ کرے بھی تو کیا خاص طور پر جرمنی، اٹلی اور فرانس کہ اس کی 40فیصد گیس اور ایک تہائی کے قریب تیل روس سے آتا ہے اور روس کی 70فیصد گیس اور نصف تیل کی برآمد یورپ جاتی ہے۔ روس یورپین یونین کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے جو یورپ کی عالمی تجارت کا 37فیصد ہے۔ اس دو طرفہ تجارتی انحصار کے باعث روس پر اقتصادی بندشوں کا نقصان روس سے زیادہ مغربی یورپ کو ہوگا، جبکہ مشرقی یورپ کی
سابق سوویت ریاستیں، روس کے یوکرین پر جارحانہ حملے سے خوفزدہ ہوگئی ہیں۔ اب جبکہ چین بڑی عالمی اقتصادی طاقت بن گیا ہے اور یوریشیا کی نئی صف بندی میں وہ روس کا بڑا پارٹنر بن رہا ہے، روس کے ساتھ کھڑا نظر آرہا ہے۔ روس کی ناکہ بندی دراصل بحراوقیانوس اور بحرالکاہل کی امریکہ عالمی صف بندی کا حصہ ہے اور نئی سرد جنگ میں تیزی کا اظہار ہے۔ نیٹو کی مزید توسیع کے خلاف روسی ڈٹ گئے ہیں اور اقتصادی پابندیوں کا مقابلہ وہ اب چین کی مدد سے کافی حد تک کرسکتے ہیں۔ یہ تلخ حقیقت کہ امریکہ اور اس کے اتحادی عالمی سامراجی اقتصادی نظام کو اپنے یکطرفہ مالیاتی قبضہ کو استعمال کرسکتے ہیں، جو اب زیادہ دیر چلنے والا نہیں۔ گلوبلائزڈ ورلڈ اور عالمی سپلائی چینز کی محتاج عالمی تجارت اور سرمایہ کاری کے دور میں اقتصادی پابندیاں پوری عالمی منڈی کو متاثر کرتی ہیں۔ روس متاثر ہوگا تو مغربی دنیا بھی متاثر ہوگی۔ دنیا یک قطبی نہیں رہی، کثیر القطبی ہوگئی ہے اور امریکہ سامراجی ورلڈ آرڈر کی پسپائی شروع ہوگئی ہے۔ روس کی نیٹو کے ذریعہ ناکہ بندی نہ صرف عالمی امن اور کرہ ارض کی سلامتی کیلئے خطرناک ہے بلکہ یہ ایسے حالات پیدا کررہی کہ یوریشیا کا وسیع تر خطہ چند استثناﺅں کے ساتھ ایک نیا بلاگ بن جائے جو چین اور روس کے اشتراک سے ممکن ہے۔ اس صورتحال میں بھارت پرانے مخمصے میں پھنس گیا ہے، لیکن وزیراعظم نریندرمودی نے وہی موقف اختیار کیا ہے جو ہنگری کے بحران کے وقت جواہرلعل نہرو نے اختیار کیا تھا۔ ایسے میں وزیراعظم عمران خان کا دورہ ایک بے وقت کی راگنی تھی۔ اگلے بیس برس میں دنیا بدلنے جارہی ہے اور ہمیں پرانے امریکی ایڈ کے خوابوں سے نکل کر سی پیک پر توجہ دینی چاہیے جس میں روس بھی شامل ہوسکتا ہے۔