ٹھیک 266 سال پہلے آج یعنی 22 جون کی شام بنگال کے محل میں ایک میٹنگ ہوئی تھی ۔
یہ میٹنگ محل مالک کے پرسنل بیڈ روم میں ہوئی تھی اور اس میٹنگ میں تین لوگ موجود تھے ۔
ایک انگریز ، محل کا مالک اور اس کا بیٹا ۔
انگریز فراوانی سے ہندی ، فارسی اور بنگالی بول سکتا تھا لہٰذا اس نے محل مالک کے سر پر قرآن اور اس کے بیٹے کے سر پر اس کا ایک ہاتھ رکھا اور قسم اٹھوائی کہ وہ وہی کرے گا جو انگریز اسے کہیں گے اور اگر وہ ویسا ہی کرے گا تو انعام میں اسے طاقت اور حکومت دی جائے گی ۔
لیکن میٹنگ کے آخر میں انگریز کے سامنے ایک شرط بھی رکھ دی گئی جو انگریز نے مان لی
چونکہ میٹنگ کامیاب ہو گئی تھی اس لیے اگلے دن انگریزوں نے ایک لڑائی کا فیصلہ کیا حالانکہ جیتنے کا کوئی چانس ہی نہیں تھا کیوں کہ انگریز بمشکل 3,100 تھے جبکہ ان کا مقابلہ پچاس ہزار کے ساتھ تھا ۔
اور پچاس ہزار بھی ایسے کہ جن کے پاس اتنی بڑی بڑی توپیں تھیں کہ انہیں سفید رنگ کے بڑے بڑے پچاس بیل کھینچ رہے تھے ۔
ان بیلوں کو بہار میں breed ہی اس مقصد کے لیے کیا گیا تھا کہ وہ لوہے کی توپیں کھینچ سکیں اور ہر توپ کے پیچھے ایک بڑا ہاتھی اسے دھکا دے رہا تھا ۔
اگر آپ نے دیکھا ہو تو لارڈ آف دی رنگز فلم کا ایک سین بھی اس منظر سے انسپائرڈ ہو کر فلمایا گیا ہے ۔لیکن انگریزوں کو ان بیلوں یا توپوں یا ہاتھیوں کی فکر نہیں تھی کیوں کہ وہ ایک کامیاب میٹنگ کر چکے تھے اور ہوا بھی وہی جس کی انہیں امید تھی ۔
جب لڑائی شروع ہوئی تو پچاس میں سے پینتالیس ہزار فوج خاموشی سے پیچھے ہٹ گئی اور محض گیارہ گھنٹے کے اندر بنگال کا پورا صوبہ انگریزوں کی جھولی میں جا چکا تھا اور ایسا گیا کہ صرف اگلے سو سال میں انگریزوں نے برصغیر سے لے کر برما تک کے علاقے پر اپنا راج قائم کر لیا تھا ۔
لیکن آپ کو یاد ہے کہ میٹنگ میں انگریز کے سامنے ایک شرط بھی رکھی گئی تھی ۔
وہ شرط تھی کہ جیتنے کے بعد انگریز ایک مخصوص شخص کی بے حرمتی کریں گے اور وعدے کے مطابق انہوں نے ایسا کیا بھی ۔
ایک خاص لاش کو ساری رات جعفر گنج دریا پر پڑا رہنے دیا گیا اور اگلی صبح اسے ہاتھی پر ڈال کر پورے شہر میں گھمایا گیا یہاں تک کہ جان بوجھ کر اس کی ماں آمنہ بیگم کے گھر کے سامنے سے بھی کر گزارا گیا ۔
پلاسی کی اس لڑائی میں مرنے والا وہ شخص تھا۔
بنگال کا نواب سراج الدّولہ
اور انگریز william watts کے سامنے یہ شرط رکھنے والا تھا بنگال کی فوج کا سربراہ غدار میر جعفر ۔
انگریز جیت تو گئے ، انہوں نے میر جعفر کو بہت کچھ دیا بھی یہاں تک کہ پورے کا پورا بنگال دے دیا ۔
وہ میٹنگ ایک کامیاب میٹنگ تھی ۔لیکن یاد رکھیں کہ ہمیشہ کے لیے کچھ بھی نہیں ہوتا ۔
ایک دن ایسا آیا کہ میر جعفر بھی ذلیل ہو کر مر گیا ۔
ایک دن ایسا آیا کہ انگریز بھی ہندوستان سے واپس چلے گئے ۔
لیکن جس محل میں 22 جون کی شام وہ میٹنگ ہوئی تھی۔
آج 266 سال گزرنے کے بعد بھی اس محل کے کھنڈرات اپنی جگہ کھڑے ہیں ۔اور وہاں سے گزرنے والا ہر شخص نفرت سے ان کھنڈرات کو دیکھ کر انہیں
’’نمک حرام ڈیوڑھی‘‘
کہہ کر بلاتا ہے ۔
اور کھنڈر ہو چکے اس محل کا نام ابد تک ’’نمک حرام ڈیوڑھی‘‘ ہی رہے گا ۔
178