اسلام آباد ( آواز خلق ) اسلام ہائی کورٹ کے 6 ججز نے فسطائیت کے خلاف علم بغاوت بلند کر دیا ۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کے خط میں اہم انکشافات
اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز نے عدالتی کیسز میں انٹیلی جنس اداروں کی مداخلت پر سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھا دیا ہےجس میں کہا گیا ہے کہ عدلیہ مں خفیہ اداروں کی مداخلت اور ججز پر اثرانداز ہونے کے معاملے پر جوڈیشل کنونشن بلایا جائے۔
تفصیلات کےمطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6ججز کی جانب سے سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھے گئے ایک خط کی تفصیلات سامنے آرہی ہیں، صحافیوں کی جانب سے سامنےلائی جانے والی تفصیلات میں کہا جارہا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز نے کیسز میں انٹیلی جنس اداروں کی مداخلت کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے اور اس حوالے سے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق کو گزشتہ دو سالوں کے دوران لکھے گئے خطوط کو بھی شامل کیا ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججز نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ “عمران خان کے خلاف ٹرایان وائٹ کیس سے ججز کی رائے میں اختلاف کا آغاز ہوا، چیف جسٹس عامر فاروق نے ٹر یان وائٹ کیس قابلِ سماعت قرار دیا جبکہ کیس ناقابلِ قرار دینے والے ججوں پر آئی ایس آئی کی جانب سے رشتہ داروں اور دوستوں کے ذریعے بےحد پریشر ڈالا گیا، یہ معاملہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ اور پھر اُس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان کے سامنے رکھا گیا تو چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ انہوں نے آئی ایس آئی کے ڈی جی سی سے بات کر لی ہے آئندہ ایسا نہیں ہو گا لیکن پھر بھی یہ سلسلہ رک نہیں سکا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججوں نے اپنے خط میں مزید لکھا ہے کہ “3 مئی کو ماتحت عدالتوں کے انسپکشن جج نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کو بتایا کہ ماتحت عدلیہ کے ججوں کو دھمکایا جا رہا ہے اور ایک ایڈیشنل سیشن جج کو ڈرانے کیلئے اسکے گھر تو کریکر بھی پھینکا گیا ہے. متعلقہ ایڈیشنل سیشن جج کو بلا کر تصدیق کی گئی اور پھر اُسے او ایس ڈی بنا کر اسلام آباد ہائیکورٹ ٹرانسفر کر دیا گیا اور بعد ازاں واپس پنجاب بھیج دیا گیا”.
2023 کی گرمیوں میں ہائیکورٹ کے ایک جج اپنی آفیشل رہائش گاہ منتقل ہوئے. دیوار کی ایک لائٹ اُتارتے ہوئے معلوم ہوا کہ اُنکے ڈرائنگ روم میں خفیہ ویڈیو کیمرہ لگایا گیا ہے اور اُس میں ڈرائنگ روم کی ویڈیوز اور آڈیوز ریکارڈ کی اور کہیں اور بھیجی جاتی رہیں. ایسا ہی ایک خفیہ کیمرہ ماسٹر بیڈروم میں بھی لگایا گیا تھا. یو ایس بی سے ملنے والی جج اور اسکی فیملی کی پرائیویٹ ویڈیوز ہائیکورٹ کے ججوں کی موجودگی میں چلا کر تصدیق کی گئی. معاملہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کے علم میں لایا گیا لیکن یہ تعین نہ کیا جا سکا کہ وہ سسٹم کس نے انسٹال کیا تھا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججوں نے خط میں لکھا ہے کہ “مئی 2023 میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے ایک جج کے بہنوئی کو یونیفارم پہنے لوگوں نے اغواء کیا، تشدد کیا، الیکٹرک شاکس دیے ویڈیو بیان ریکارڈ کرانے کیلئے مجبور کیا. جج کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کر کے اور میڈیا پر مہم چلوا کر استعفیٰ دینے کیلئے پریشر ڈالا گیا”.
خط میں ایک دوسری مثال دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ایک جج کے سالے کو آئی ایس آئی نے اغوا کیا، بجلی کے جھٹکے دیے، اقبالی بیان کیلئے پریشر ڈالا اور میڈیا پر اس جج کے خلاف مہم چلوائی کہ وہ مستعفیٰ ہوجائیں، جج کے بیڈروم وڈرائنگ روم میں خفیہ کیمروں کی شکایت جب چیف جسٹس عامر فاروق کو لگائی گئی تو بھی تحقیقات نہیں ہوئیں ۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججوں نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ “10 مئی 2023 کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججوں نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جو خط لکھ کر مطالبہ کیا کہ عدالتی کارروائی میں مداخلت کرنے والوں کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی کر کے یقینی بنایا جائے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ ایگزیکٹو یا انٹیلی جنس ایجنسیوں کی مداخلت کے بغیر اپنے فرائض سرانجام دے رہی ہے لیکن کوئی کارروائی شروع نہیں کی گئی. خط کی کاپی بھی ساتھ لف کی گئی ہے”.
خط میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے ہائیکورٹ کے بنچوں کی تشکیل میں انٹیلی جنس اداروں کی مداخلت کے الزام کی انکوائری کے مطالبے کی حمایت کرتے ہوئے مزید مطالبہ کیا گیا ہے کہ انکوائری کا سکوپ بڑھا کر یہ بھی تعین کیا جائے کہ کیا اسلام آباد ہائیکورٹ کے موجودہ انتظامی معاملات حتی کہ بنچوں کی تشیکل اور مقدمات کی مارکنگ اور عدالتی کارروائی میں اب بھی مداخلت جاری ہے یا نہیں؟ اور کیا ہائیکورٹ اور ماتحت عدالتوں کے جج اِن تھریٹس کے دوران اپنے فرائض درست طور پر ادا کر رہے ہیں؟