143

مدر روتھ فاؤ کا قرض

Spread the love

Ruth Katherina Martha Pfau

کبھی کبھی کوئی اتنی محبت دے جاتا ھے کہ ھم چاہ کر بھی اس کا قرض کبھی نہیں اتار سکتے۔

ایسی ھی ایک حسین پری 1960 میں کراچی آئی اور پھر یہی کی ھوکر رہ گئی۔ اس نے خدمت، محبت، اپنائیت خلوص اور اپنے پن کی وہ مثال قائم کی۔ جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔

تیس سال کی تھیں جب کراچی آئیں یہاں اس وقت کوڑھ (Leprosy) کا مرض پھیلا ھوا تھا۔

اس وقت اس مرض کا کوئی علاج نہ تھا۔ اس میں جسم کے حصے گلنا سڑنا شروع ھو جاتے ھیں اور زخموں سے انتہائی بدبو آتی ھے۔

یہ مرض چھوتی (Contagious) بھی تھا. تو مریض کے اپنے اسے گھر سے نکال دیتے۔ یہ لوگ بھیک مانگتے اور سسک سسک کر مر جاتے۔

ایسے میں ڈاکٹر روتھ فاؤ نے ان کا علاج شروع کیا۔ ان کے لیے سینٹر قائم کیے۔
اپنی محنت لگن سے انھوں نے اس مرض
پر قابو پالیا۔

پاکستان میں 157 سینٹر قائم کیے۔
اپنے حصے کا کھانا مریضوں کو کھلایا,
ان کی مرہم پٹی کی, ان کو حوصلہ دیا, جینے کی آس دلائی۔

انہوں نے اردو زبان سیکھ لی.
جب پاکستانی لباس پہنتی اور سر پہ
دوپٹہ اوڑھ لیتیں تو کوئی آسمان سے
اتری ھوئی پری دکھائی دیتی۔

انہوں نے تمام عمر شادی نہیں کی۔
اپنے وطن واپس نہیں گئی۔ وصیت
کی کہ مجھے پاکستان میں ھی دفنایا
جائے۔

ان کو بے شمار اعزازات سے نوازا گیا،
ان کو مدر روتھ فاؤ بھی کہا جاتا ھے۔

لیکن مجھے لگتا ھے ھم اور ھماری آئندہ نسلیں بھی ان کی محبت اور قربانی کی مقروض رھیں گی۔ 💞

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں