91

ہاکی کی تاریخ کا متنازعہ ترین میچ۔

Spread the love

پاکستانی ہاکی کی تاریخ کا متنازعہ ترین میچ۔
میونخ اولمپکس 1972 ہاکی فائنل بلاشبہ پاکستانی ہاکی کی تاریخ کا متنازعہ ترین میچ رہا اس میچ کے دوران مسلسل پاکستانی کھلاڑی امپائرز سے نالاں رہے . یقیناً فائنل میچ کے نیوٹرل امپائرز، ارجنٹائن کے ہوراشیو سرویٹو اور آسٹریلیا کے ویل رچرڈ جیول کے لیے یہ مشکل ترین میچ تھا۔ ان کے کچھ فیصلے پاکستانی ٹیم کے لیے اچھے نہیں تھے۔ کپتان اسد ملک اور شہناز شیخ کو انتہائی معمولی بات پر یلو کارڈ دکھایا گیا۔ ایڈوانٹیج کا اصول بھی منصفانہ طور پر لاگو نہیں کیا گیا تھا۔
اس سب کے باوجود گرین شرٹس نے کچھ اچھی ہاکی کا مظاہرہ کیا اور پہلے ہاف کے آخری 10 منٹ میں دو اچھے مواقع ان کے ہاتھ میں آئے۔ اسد ملک، جنہیں گھٹنے میں تکلیف تھی نے ایک گول مس کیا۔ مدثر نے ریباؤنڈ پر گول کیا لیکن پاکستانی کھلاڑی کے آف سائیڈ ہونے کی وجہ سے گول نہیں دیا گیا
جب میچ میں 10 منٹ سے بھی کم وقت باقی تھا، مائیکل کراؤس نے پنالٹی کارنر پر گول کیا۔ گرین شرٹس نے احتجاج کیا، کیونکہ گیند براہ راست نیٹ میں گئی تھی، مروجہ قوانین کے مطابق اس کی اجازت نہیں تھی۔ لیکن گول دے دیا گیا اور جرمنی نے پہلی بار طلائی تمغہ جیتا، اس طرح 1920 کے بعد اولمپکس کا ٹائٹل جیتنے والا بھارت اور پاکستان کے علاوہ پہلا یورپی ملک بن گیا۔
فائنل سیٹی بجتے ہی پاکستانی شائقین اور آفیشلز گراؤنڈ میں داخل ہو گئے اور مغربی جرمن پولیس اور سٹیڈیم کی سکیورٹی کے ساتھ اچھی خاصی ہاتھا پائی ہوئی ٹورنامنٹ آفیشلز کی میز پر دھاوا بول دیا اور انٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن کے صدر رینے فرینک پر پانی انڈیل دیا۔
فتح کی تقریب کے دوران بھی پاکستانی کھلاڑیوں نے سخت رویہ اپنائے رکھا۔ انہوں نے احتجاج کرتے ہوئے چاندی کے تمغے گلے میں نہیں وصول کیے بلکہ اپنے ہاتھوں میں پکڑے رکھے۔جب مغربی جرمنی کا پرچم بلند کیا جانے لگا اور مغربی جرمنی کا قومی ترانہ بجایا گیا تو کھلاڑیوں نے منہ موڑ لیا اور پرچم کی طرف پیٹ کر دی۔ شہناز شیخ نے اپنا سلور میڈل بھی کچھ دیر کے لیے اپنے جوتے کے گرد لگا دیا۔
یہاں تک کہ پاکستانی تماشائی اور پاکستانی اولمپکس آفیشلز بھی گراؤنڈ میں داخل ہوئے اور جرمن آفیشلز کو دھکے مارے۔

انٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن نے پاکستانی ہاکی ٹیم کے اس رویے کی وجہ سے پاکستان کے خلاف سخت کاروائی کا فیصلہ کیا۔
ابتدائی طور پر پاکستان کو بین الاقوامی ہاکی مقابلوں میں کچھ وقت کے لیے پابندی لگانے کی تجویز دی گئی تھی۔ اس کے بعد تجویز دی گئی کہ بدتمیزی کرنے والے 13 کھلاڑیوں اور ان کے منیجر ڈاکٹر غلام رسول چوہدری پر تاحیات پابندی عائد کر دی جائے۔

بالآخر، توہین آمیز 13 کھلاڑیوں پر ایک سال کی پابندی عائد کر دی گئی، اس طرح وہ 1973 کے ورلڈ کپ میں کھیلنے کے لیے نااہل ہو گئے۔

پابندی سے بچ جانے والے پانچ کھلاڑیوں میں زخمی فل بیک تنویر ڈار، دو ریزرو ہاف بیک اختر رسول اور افتخار سید اور دو ریزرو فارورڈ زاہد شیخ اور عمر فاروق شامل ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں