49

آئی پی پیز پر نوازشات کی برسات،ٹیکس فری معاہدے

Spread the love

اسلام آباد (آواز خلق ) حکومتوں کی جانب سے آئی پی پیز مالکان کو نوازانے کے معاہدوں کی تفصیلات منظرعام پر آ گئیں ۔ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے کمپنیوں کی شرائط پر یکطرفہ کئے گئے اور کمپنیوں کو ٹیکس، ڈیوٹیز اور قوانین کی پیچیدگیوں سے آزاد کر دیا گیا۔آئی پی پیز کے لیے تمام تر ملکی قوانین میں سہولتیں دی گئیں اور پاور کمپنیوں کو 100 فیصد منافع پر معاہدے کئے گئے ۔ کمپنیوں کو اجازت دی گئی کہ وہ مختلف پانچ کرنسی میں چاہیے تو کاروبار کرسکتے ہیں جس میں امریکی ڈالر، پاؤنڈ ، یورو ، چاپانی ین شامل ہے لیکن کمپنیوں کو منافع اور ادائیگیاں ڈالروں میں کرنے کی گارنٹی دی گئی۔حکومت کی جانب سے سرمایہ کاروں کے لیے سہولت فراہم کی گئی کہ انہیں جب اور جتنی کرنسی چاہیے سٹیٹ بینک بندوبست کرے گا جبکہ کمپنیوں کے سرمائے کی انشورنس حکومت دے گی اور کمپنیوں کو اجازت دی گئی کہ وہ پاور پلانٹس کی تعمیری لاگت اور مرمت اپنے مطابق کریں۔پاور پلانٹس کو ایندھن کی فراہمی یقینی بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے ۔ حکومت نے آئی پی پیز کو گارنٹی دی کہ ملک میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کا معاہدوں پر اثر نہیں پڑے گا۔ ٹیکس میں تبدیلی اور ردو بدل کا بھی آئی پی پیز معاہدوں پر اثر نہیں پڑے گا۔ آئی پی پیز مالکان کو فارن کرنسی کی تر سیل میں بھی حکومت مدد فراہم کرتی ہے
جبکہ حکومت پاکستان سرمایہ کاروں کو قانونی، سیاسی اور مارکیٹ کے رسک سے بھی تحفظ فراہم کرتی ہے ۔ جس میں پاکستان کے قوانین اور ٹیکس میں تبدیلی شامل ہے جبکہ لائسنس کی تجدید کی شق بھی شامل کی گئی ہے ۔ آئی پی پیز کے سرمایہ کاروں ، انجینئرز اور اور دیگر غیر ملکی عملے کو بغیر کسی مشکلات کے ویزوں کی فراہمی بھی شرائط کا حصہ ہیں۔ پاور جنریشن یا ٹرانسمیشن کمپنی جب بھی کوئی منصوبہ لگا تی ہے تو اس کا معاہدہ یا ڈاکومنٹس ہوتے ہیں جن کو سکیورٹی پیکیج ڈاکومنٹس (ایس پی ڈی) کا نام دیا جاتا ہے ۔

حکومت پاکستان کی طرف سے پرائیویٹ انفراسٹرکچر بورڈ ان کے ساتھ دستخط کرتا ہے ۔ سکیورٹی پیکیج ڈاکومنٹس میں ایمپلیمنٹشن ایگریمنٹ ، گارنٹی شامل ہوتا ہے جبکہ سی پیک پراجیکٹ کی صورت میں ڈائریکٹ ایمپلیمنٹشن ایگریمنٹ اور سپلیمنٹل ایگریمنٹ شامل ہوتا ہے ۔ اس کے بعد سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی کمپنیوں کے ساتھ پاور پرچیزنگ ایگریمنٹ (پی پی اے ) پر دستخط کرتا ہے ۔ اگر پاور پلانٹ تھرمل ہو تو حکومت پاکستان ان کے ساتھ فیول سپلائی ایگریمنٹ بھی کرتا ہے جس کے تحت ایندھن فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے جبکہ ہائیڈل پاور پراجیکٹ میں صوبوں یا حکومت آزاد کشمیر کے ساتھ پانی کے استعمال کا منصوبہ دستخط کیا جاتا ہے
جب بھی کسی آئی پی پی کے ساتھ معاہدے پر دستخط ہوتے ہیں تو مختف وزارتوں، سٹیک ہولڈرز ، محکموں کے ساتھ ڈسکشن ہوتی ہے اس کے بعد ای سی سی سے منظوری لی جاتی ہے اور کابینہ سے بھی منظور کیا جاتا ہے ۔ منصوبے لگانے والوں کو نیپرا، این ٹی ڈی سی ، سٹیٹ بینک ، ایف بی آر اور دیگر محکموں سے منظوری لینا لازمی ہوتا ہے ۔
پاور ڈویژن ذرائع نے دعوی کیا ہے کہ ٹیکسز اور ڈیوٹیز میں سہولتوں سے آئی پی پیز نے 12 سو ارب روپے کا فائدہ اٹھایا ہے جبکہ کرنسی میں سہولیات سے آئی پی پیز نے مختلف کرنسیاں استعمال کیں لیکن وصولیاں ڈالروں میں لیں اور انجینئرنگ پراجیکٹ لاگت اور مرمت آپریشنز میں سہولیات دینے سے لاگت کا من مانا تخمینہ لگایا گیا۔ 1994 سے اب تک آئی پی پیز 15ہزار ارب روپے کپیسٹی پے منٹ وصول کر چکے ہیں ۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ آئی پی پیز کے معاہدے 25 سے 30 سال کے لیے کیے گئے جس میں پہلے 10 سال میں آئی پی پیز نے اپنی لاگت منافع کے ساتھ پوری کر لی اور باقی مدت میں پیداواری نرخ کم کرنے تھے لیکن کم ہونے کے بجاے بڑھا دیئے گئے ۔ آئی پی پیز کے 100 فی صد منافع کو یقینی بنانے کے لیے مقامی اور بین الاقوامی مہنگائی کو بھی ٹیرف میں شامل کیا گیا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں