دہلی ( آواز خلق ) لیفٹننٹ جنرل فہد بن عبداللہ محمد المطیر بھارت کا دورہ کرنے والے پہلے سعودی آرمی چیف ہیں۔ لیفٹننٹ جنرل فہد بن عبداللہ محمد المطیر بھارت کا دورہ کرنے والے پہلے سعودی آرمی چیف ہیں۔ سعودی عرب کے آرمی چیف لیفٹننٹ جنرل فہد بن عبداللہ محمد المطیر کے حالیہ دورے کو بھارت کی وزارتِ دفاع نے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کے لیے تاریخی پیش رفت قرار دیا ہے۔ یہ کسی سعودی آرمی چیف کا پہلا دورۂ بھارت تھا۔ پیر کو شروع ہونے والے دورے میں انہوں نے بھارتی آرمی چیف منوج مکند نرونے سے ملاقات بھی کی تھی۔خیال رہے کہ 14 ماہ قبل بھارت کے آرمی چیف نے بھی سعودی عرب کا دورہ کیا تھا۔ یہ کسی بھارتی آرمی چیف کا پہلا دورۂ سعودی عرب تھا۔
بھارت کی وزارتِ دفاع کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب کے آرمی چیف کے دورے کا مقصد دونوں ملکوں کے درمیان دفاعی روابط کو فروغ دینا تھا۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ بھارت اور سعودی عرب معاشی استحکام، دہشت گری کے خاتمے اور ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق مشترکہ اہداف رکھتے ہیں۔
’تعلقات کی نوعیت بدل رہی ہے‘
بھارت اور سعودی عرب کے درمیان اس سے قبل تجارتی تعلقات پائے جاتے ہیں۔ سعودی عرب بھارت کو تیل فراہم کرنے والے بڑے ممالک میں شامل ہے۔ اس کے علاوہ سعودی عرب میں 35 لاکھ سے زائد بھارتی شہری برسرِ روزگار ہیں۔ سعودی اخبار ’عرب نیوز‘ کے مطابق حالیہ برسوں میں دونوں ممالک کے درمیان سیکیورٹی روابط بڑھے ہیں اور بھارت کے وزیرِ اعظم مودی ان تعلقات کو بڑھانے کے لیے کوشاں ہیں۔گزشتہ برس دونوں ممالک کے دفاعی تعاون میں بڑی پیش رفت ہوئی تھی جب اگست میں دونوں ممالک کی بحریہ نے جبیل میں مشترکہ جنگی مشقیں کی تھیں۔اگرچہ یہ دورہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب گزشتہ ہفتے اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) نے بھارت کی ریاست کرناٹک میں مسلم طالبات کے حجاب پر اٹھنے والے تنازع پر ردعمل بھی ظاہر کیا تھا۔ تاہم بھارتی اخبار ’دی پرنٹ‘ کے مطابق سعودی آرمی چیف کا دورہ بظاہر بھارت اور سعودی عرب کے تعلقات میں تبدیلیوں کا ایک اور قدم معلوم ہوتا ہے۔
سعودی عرب کے لیے کون اہم؟
سعودی عرب ایک ایسا ملک ہے جس کے پاکستان سے تاریخی طور پر قریبی تعلقات پائے جاتے ہیں۔ البتہ اگست 2020 میں بھارت کی کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا پہلا سال مکمل ہونے پر پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کے بیان پر دونوں ممالک کے تعلقات میں سرد مہری آگئی تھی۔شاہ محمود قریشی نے اس موقعے پر اپنے بیان میں اسلامی تعاون تنظیم کا خصوصی اجلاس بلانے پر زور دیتے ہوئے سعودی عرب سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اس معاملے پر ’قائدانہ کردار‘ ادا کرے۔ انہوں ںے اپنے بیان میں یہ بھی کہا تھا کہ اگرسعودی عرب ایسا نہیں کرتا تو پاکستان ملائیشیا، ترکی اور ایران سمیت دیگر ممالک سے رابطے کرنے پر مجبور ہو گا۔ اس بیان کے بعد سعودی عرب نے پاکستان کو نومبر 2018 میں دیے گئے تین ارب ڈالر قرض میں سے ایک ارب ڈالر واپس لے لیے تھے۔ بروکنگز انسٹی ٹیوشن کے لیے اپنے ایک مضمون میں سینٹر فور مڈل ایسٹ پالیسی کی فیلو مدیحہ افضل کے مضمون کے مطابق کشمیر پر او آئی سی کا خصوصی اجلاس نہ بلا کر سعودی عرب نے واضح کر دیا تھا کہ وہ بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات بڑھانے میں زیادہ دلچسپی رکھتا ہے۔بعدازاں پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی سعودی عرب کا دورہ کیا تھا۔ بعض مبصرین نے اسے کشمیر پر شاہ محمود قریشی کے بیان سے دونوں ممالک کے تعلقات میں آنے والی سرد مہری دور کرنے کی کوشش قرار دیا تھا۔ لیکن پاکستانی فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر نے اسے طے شدہ دورہ قرار دیا تھا ور اپنے بیان میں کہا تھا کہ دونوں ممالک کے تعلقات تاریخی طور پر بہت اہم اور بہترین ہیں اوربہتریں رہیں گے۔ مشرقِ وسطی کے امور سے متعلق رپورٹنگ کرنے والی برطانوی ویب سائٹ ’مڈؒل ایسٹ آئی‘ کے مطابق سعودی آرمی چیف کے دورے کو اس تناظر میں بھی دیکھنا چاہیے کہ رواں ماں سعودی عرب کے وزیرِ داخلہ شہزادہ عبدالعزیز بن سعود بن نائف نے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ ماہرین کے مطابق یہ دورہ یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف پاکستان سے سفارتی اور دفاعی تعاون حاصل کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔
’ملاقات میں پاکستان بھی موجود ہے‘
بھارتی فوج کی جانب سے فوج کے دونوں سربراہان کی ملاقات کی جاری کردہ تصاویر میں بعض میں پس منظر میں وہ تصویر بھی شامل ہے جو 16 دسمبر 1971 کو ڈھاکہ میں پاکستانی فوج کے بھارت کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے معاہدے کے موقعے پر اتاری گئی تھی۔بھارت میں اس تصویر کو پاکستان کے خلاف بھارت کی کامیابی کی علامت قرار دیا جاتا ہے۔