کافی: وہ مقبول مشروب جس کا تعلق کبھی جنسی طاقت سے جوڑا گیا!! دنیا بھر میں روزانہ دو ارب کپ سے زیادہ کافی پی جاتی ہے۔ صرف برطانیہ میں نو کروڑ کپ کافی روزانہ استعمال ہوتی ہے۔آج دنیا کے مختلف گوشوں میں صبح سے شام تک کافی پی جاتی ہے لیکن 450 سال پہلے مغربی یورپ میں شاید ہی کسی نے کافی کا نام بھی سنا ہو۔کافی کی جڑیں ایتھوپیا میں پیوستہ ہیں، جہاں کافی کا پودا جنگلوں میں بہت تیزی سے پنپتا تھا لیکن لوگوں کا دھیان اس طرف ذرا دیر سے اور رفتہ رفتہ ہی گیا۔انھوں نے محسوس کیا کہ اس خشک پھل کو مشروب کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے اور یہ بھی کہ یہ مشروب نشے کا باعث بھی ہو سکتا ہے۔ آہستہ آہستہ پینے والوں میں اس کا چرچا عام ہونے لگا۔
مغربی ممالک میں اسے پینے والوں کو اس کا ذائقہ پسند آنے لگا اور پھر انھوں نے یہ محسوس کیا کہ یہ کاروبار کے لیے بہت موزوں شے ہے۔
درحقیقت لوگ شراب اور بیئر تو پی ہی رہے تھے لیکن کاروباری مذاکرات کے دوران نفیس بات چیت میں یہ مشروب مددگار نہیں تھے۔
کاروبار سے متعلق بات کرتے وقت ذہن بالکل صاف اور چست ہونا چاہیے۔اگرچہ اس پر رائے منقسم ہے لیکن کافی کو پلوٹو (افلاطون) کا ڈائیٹ ڈرنک بھی کہا جاتا تھا۔
برطانیہ میں پہلا کافی ہاؤس سنہ 1651 میں آکسفرڈ میں کھولا گیا۔ اس کے بعد لندن میں بھی کافی ہاؤس کھلنے لگے۔
اب ہر قسم کے لوگوں کے لیے کافی کلب کھل گئے۔ بینکروں، تاجروں سے لے کر ادیبوں تک کے پسندیدہ کافی اڈے بن گئے۔ ان میں سیاست پر برملا اظہار ہوتا تھا اور سیاست بھی ہوتی تھی۔ان کافی کے اڈوں پر ملک سے غداری کو فروغ دینے کے الزامات لگائے گئے اور چارلس دوم نے ان پر پابندی لگانے کی کوشش کی۔ ان کافی ہاؤسز میں آنے والے لوگوں کے لیے اخبار اور جریدے بھی فراہم کیے جانے لگے۔
چونکہ یہ کافی ہاؤس عام طو پر مردوں کے لیے ہی مختص تھے اس لیے کافی کو جلد ہی مردوں کے مشروب کے طور پر جانا جانے لگا۔
تحقیق کے مطابق آج بھی خواتین سے کہیں زیادہ کافی مرد پیتے ہیں۔ بہر حال کافی کے ساتھ تنازعات بھی منسلک رہے اور کسی بھی نئی اور غیر ملکی چیز سے متعلق جو خوف ہوتا ہے وہ کافی کے بارے میں بھی تھا۔سب سے بڑا الزام سنہ 1674 میں لگایا گیا جب یہ کہا گیا کہ کافی نامردی کا باعث بنتی ہے جبکہ بعض لوگوں کا دعویٰ اس کے بالکل برعکس تھا۔ انھوں نے کہا کہ اس سے مردانہ طاقت میں اضافہ ہوتا ہے۔
کافی کا ذائقہ اب بھی بہت سے لوگوں کو پسند نہیں۔ شاید اسی لیے برطانیہ میں اسے چائے کی طرح اس میں دودھ اور شکر کو ملا کر پینے کا رواج شروع ہو گیا اور یوں کافی پینے کے رواج کو مزید فروغ ملا۔18ویں صدی تک برطانوی طرز زندگی میں یہ اچھی طرح سے شامل ہو چکی تھی۔ اس کے بعد یہ مشروب کافی ہاؤسز سے نکل کر لوگوں کے گھر تک پہنچ گيا اور اسے دن بھر کے کھانے کے بعد کے مشروب کے طور پر فروغ ملنے لگا۔19ویں صدی تک کافی کا ذائقہ بہت خراب تھا لیکن اسی دوران اٹلی میں ایسپریسو مشین کی ایجاد ہوئی۔ یہ مشین پانی پر بہت زیادہ دباؤ ڈالتی تھی۔ یہ پانی کافی بیجوں سے ہو کر گزرتا تھا۔اٹلی کا کافی کلچر اپنے مستقبل کے نظریے اور چمکدار مشنوں کے ساتھ پھیلنا شروع ہوا۔
اس طرح بہت زیادہ کسی کوشش کے بغیر کافی کی خوشبو پوری مغربی دنیا میں پھیلنے لگی۔ کافی کے استعمال کے بھی اصول بنائے جانے لگے۔ مثال کے طور پر، دوپہر کے کھانے کے بعد کیپیچینو کافی کا استعمال نہ کریں، جیسی باتیں کہی گئیں۔گذشتہ 20 سال کے دوران دنیا میں کافی کی مختلف اقسام نمودار ہوئی ہیں۔ اس دوران کافی پینے کا طریقہ بھی بدلا۔ لوگ اب سڑکوں پر ہاتھوں میں کافی کا کپ تھامے چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔اب ایسے طریقے سامنے آ رہے ہیں کہ یہ سمجھنا مشکل ہے کہ جدید ترین طریقہ کیا ہے۔ اب یہ ایک نیا فیشن بن گیا ہے۔
پچھلے 450 سال میں معاشرے اور کافی دونوں نے بہت ترقی کی ہے لیکن ایک چیز نہیں بدلی اور وہ ہے کافی کی مقبولیت۔
یہ لوگوں کے درمیان میل جول کا ایک ذریعہ بنی ہوئی ہے۔ آج بھی کافی پینا کافی ’کول‘ یعنی پرکشش سمجھا جاتا ہے
111