55

بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر

Spread the love

تحریر
از قلم:
احمد مجتبیٰ نور فاروقی
سول جج، وزیر آباد
(12 ربیع الاول بتاریخ 17 ستمبر 2024)
عرب و حجاز کے لق و دق تپتے ریگزاروں میں جب جہالت، ظلم و بربریت اور فسطائیت اپنے عروج پر تھی، جب بیٹیاں زندہ درگور کر دی جاتیں تھیں، جب گھوڈا آگے دوڑانے پر سالہا سال دشمنیاں پلتی تھیں، جب لات و منات کی پوجا پاٹ کی جاتی تھی، جب فقیروں اور غریبوں کے درد کا کوئی درماں نہیں تھا، جب ظلم و جبر کا بازار گرم تھا، جب اخلاقیات کی دھجیاں بکھیر دیں گئی تھیں ، جب فحاشی اور عریانی کا دور دورہ تھا، جب عرب پر جہالت اور بے راہ روی کا گھٹا ٹوپ اندھیرا چھایا ہوا تھا تو اس دور پر آشوب میں آپ ﷺ کے نور کا آفتابِ مُبیں طلوع ہوتا ہے تو ظلمات کے طویل اندھیرے چھٹ جاتے ہیں، ظلم و بربریت اور جہالت کی اس سیاہ رات کا اختتام ہوتا ہے اور احمد ندیم قاسمی پکار اٹھتے ہیں:

*اب بھی ظلمت فروشوں کو گلہ ہے تجھ سے*
*رات باقی تھی کہ سورج نکل آیا تیرا*

سعد امروہی کہہ اٹھتے ہیں:

*تم آئے تو جہاں بھر میں سویرا کر دیا تم نے*
*میرے آقا اندھیرے میں اجالا کر دیا تم نے*

ناصر امروہی اس مضمون کو یوں باندھتے ہیں:

*آمنہ کے لال سے شمس وقمر شرما گئے*
*روشنی پھیلی فضا جھومی محمد آگئے*

سچے عاشق نبی آخر الزماںﷺ امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ فرما دیتے ہیں:

*جس سہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند،*
*اُس دل افروز ساعت پر لاکھوں سلام*

شافع روزِ محشر، ساقی حوض کوثر ، صاحب شقّ القمر، صاحب جود و سخا، شہہ ہر دو سرا، دنیا کی لغزشوں سے ماورا، معصوم عن الخطاء، وہ سراجاً منیرا، وہ خاتم الانبیاء، وہ سردار الانبیاء، وہ محبوب یزدانی، وہ عشق سبحانی، وہ مکین سر لا مکانی، وہ فخر نوع انسانی، وہ مشیت حکم ربّانی ، وہ صاحب لوحِ قرآنی اس دنیائے فانی میں تشریف لائے تو آپکے نور سے اس کائنات کا ذرہ ذرہ جگمگا اٹھا جیسے بے قراروں کو قرار آجائے، جیسے خزاؤں میں بہار آجائے، جیسے بنجر زمینوں میں پھوار آجائے، جیسے فقیروں کے پاس درہم دینار آجائے، جیسے لیل میں نہار آجائے، جیسے رب العزت کو بے کسوں بے سہاروں پر پیار آجائے، جیسے ڈوبتی نیا کو کوئی پار لگا جائے۔ حکیم الامت حضرت علامہ محمد اقبال علیہ رحمۃ فرماتے ہیں:

*ہو نہ یہ پھُول تو بُلبل کا ترنُّم بھی نہ ہو*
*چَمنِ دہر میں کلیوں کا تبسّم بھی نہ ہو*
*یہ نہ ساقی ہو تو پھرمے بھی نہ ہو، خُم بھی نہ ہو*
*بزمِ توحید بھی دنیا میں نہ ہو، تم بھی نہ ہو*

پھر فرماتے ہیں:

*لوح بھی تُو، قلم بھی تُو، تیرا وجود الکتاب*
*گُنبدِ آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب*
*عالمِ آب و خاک میں تیرے ظہور سے فروغ*
*ذرہٴ ریگ کو دیا تُو نے طلوعِ آفتاب*
*شوق ترا اگر نہ ہو میری نماز کا امام*
*میرا قیام بھی حجاب، میرا سجود بھی حجاب*

اس اندھیری دنیا کو اپنے نور سے منور کرنے کے بعد آپ ﷺ نے اپنے حسن اخلاق، أسوہ حسنہ، بلندی کردار، نرمئ گفتار اور اپنے حسن و جمال کی رعنائیوں سے دنیا کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔ کون تھا جو ایک بار آپﷺ سے شرف ملاقات پاتا اور اپ پر پروانہ وار فدا نہ ہو جاتا۔ دوست تو دوست دشمن بھی آپ ﷺ کی صداقت ، امانت، لیاقت، وجاہت اور متانت کی شہادت دیتے۔ آپ
ﷺ کو اخلاق کے ارفع ترین مقام اور منصب پر فائز کیا گیا۔رہتی دنیا تک ایک بہترین اور بے مثل نمونہ دینا تھا لہذا آپ ﷺ کو اس دنیائے فانی کی ہر آزمائش، ابتلاء اور آلام دے کر آزمایا گیا۔ اس درّ یتیم، حضرت آمنہ سلام اللہ علیہا کے گوہرِ نایاب، اس ھاشمی النسل درّ ثمین پر آلام و مصائب کے پہاڈ ٹوٹے مگر سلام اس ذات بابرکت پر جس کی زباں پہ ایک بھی حرف شکایت آیا ہو۔ بقول شاعر:

*اے رسولِ امیںؐ ، خاتم المرسلیںؐ*
*تجھ سا کوئی نہیں ، تجھ سا کوئی نہیں*
*ہے عقیدہ اپنا بصدق و یقیں*
*تجھ سا کوئی نہیں ، تجھ سا کوئی نہیں*
*اے براہیمی و ہاشمی خوش لقب*
*اے تو عالی نسب اے تو والا حسب*
*دودمانِ قریشی کے دُرِ ثمین*
*تجھ سا کوئی نہیں ، تجھ سا کوئی نہیں*
*دستِ قدرت نے ایسا بنایا تجھے*
*جملہ اوصاف سے خود سجایا تجھے*
*اے ازل کے حسیں اے ابد کے حسیں*
*تجھ سا کوئی نہیں ، تجھ سا کوئی نہیں*
*بزمِ کونین پہلے سجائی گئی*
*پھر تری ذات منظر پر لائی گئی*
*سید الاوّلیںؐ ، سید الآخریںؐ*
*تجھ سا کوئی نہیں ، تجھ سا کوئی نہیں*
*تیرا سکہ رواں‌ کل جہاں میں ہوا*
*اِس زمیں میں ہوا ، آسماں میں ہوا*
*کیا عرب کیا عجم سب ہیں زیرِ نگیں*
*تجھ سا کوئی نہیں ، تجھ سا کوئی نہیں*
*تیرے انداز میں وسعتیں فرش کی*
*تیری پرواز میں رفعتیں عرش کی*
*تیرے انفاس میں‌ خلد کی یاسمیں*
*تجھ سا کوئی نہیں ، تجھ سا کوئی نہیں*
*’سدرۃ المنتہیٰ’ رہگزر میں تری*
*’قابَ قوسین’ گردِ سفر میں تری*
*تو ہے حق کے قریں حق ہے تیرے قریں*
*تجھ سا کوئی نہیں ، تجھ سا کوئی نہیں*
*کہکشاں ضو ترے سرمدی تاج کی*
*زلفِ تاباں حسیں رات معراج کی*
*’لیلۃُ القدر’ تیری منور جبیں*
*تجھ سا کوئی نہیں ، تجھ سا کوئی نہیں*
*مصطفیٰؐ ، مجتبیٰؐ ، تیری مدح و ثنا*
*میرے بس میں نہیں دسترس میں نہیں*
*دل کو ہمت نہیں ، لب کو یارا نہیں*
*تجھ سا کوئی نہیں ، تجھ سا کوئی نہیں*
*کوئی بتلائے کیسے سراپا لکھوں*
*کوئی ہے وہ کہ میں جس کو تجھ سا کہوں*
*توبہ توبہ! نہیں کوئی تجھ سا نہیں*
*تجھ سا کوئی نہیں ، تجھ سا کوئی نہیں*
*چار یاروں کی شان جلی ہے بھلی*
*ہیں یہ صدیقؓ ، فاروقؓ ، عثمانؓ ، علیؓ*
*شاہدِ عدل ہیں یہ ترے جانشیں*
*تجھ سا کوئی نہیں ، تجھ سا کوئی نہیں*
*اے سراپا نفیسؔ انفسِ دوجہاں*
*سرورِ دلبراں ، دلبرِ عاشقاں*
*ڈھونڈتی ہے تجھے میری جانِ حزیں*
*تجھ سا کوئی نہیں ، تجھ سا کوئی نہیں*

آپ ﷺ معلم بھی تھے، رہنما بھی، سپاہی بھی تھے ،سپہ سالار بھی، سیاست دان بھی تھے ، منصف بھی، پالیسی ساز بھی تھے، امام بھی، دوست بھی تھے، ہمدرد بھی، نور بھی تھے، بشر بھی، رسول بھی تھے، نبی بھی، نذیر بھی تھے، بشیر بھی، شاہد بھی تھے، مبشر بھی، خاک نشیں بھی تھے، عرش نشیں بھی، والد بھی تھے، ولد بھی، محبوب بھی تھے، محب بھی، عاشق بھی تھے، معشوق بھی۔ کون سا وصف حمیدہ ہے جو ذات گرامی و ارفع میں بدرجہ اتم موجود نہیں ہے۔ سمندروں کا پانی، صحراؤں کے ذرے، جنگلوں کے پتے، دریاؤں کی موجیں، آسمانوں کے تارے، قلموں کی سیاہیاں ختم ہو جائیں گی مگر آپ ﷺ کے اوصاف حمیدہ کا احاطہ نہیں کر پائیں گی۔ اسی لئے شاہ عبد الحق محدث دہلوی پکار اٹھتے ہیں:

*یا صاحب الجمال و یا سید البشر*
*من وجہک المنیر لقد نور القمر*
*لا یمکن الثناء کما کان حقہ*
*بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر*

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اسوہ حسنہ ﷺ کو اپنا کر دنیا و آخرت کی بھلائیاں اور کامیابیاں اپنے دامن میں سمیٹ لیں اور نبی آخر الزمان، محمد مصطفیٰ، احمد مجتبیٰ ، محمد مرتضیٰﷺ کی سنت مطہرہ و پاکیزہ کو دوبارہ زندہ و جاوید کر کے دنیا میں اعلیٰ مقام حاصل کریں ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں