تاریخ کے عظیم ترین شعراء میں سے ہیں لیکن کہتے ہیں کہ میں تو شاعر ہوں ہی نہیں ۔۔۔ اور سچ بھی ہے کہ انہیں عظیم شاعر کہہ دینے سے ان کی پوری یا بنیادی حقیقیت بیان نہیں ہوتی۔
“ری کنسٹرکشن” جیسی کتاب کے مصنف ہیں جو جدید دور میں مسلم فلسفے میں چوٹی کا کام سمجھا جاتا ہے لیکن فلسفے سے بیزار بھی ہیں۔
صوفی ماں باپ کی صوفی منش اولاد ہیں اور سر تا پا صوفیانہ روایت میں ڈوبے ہوئے ہیں لیکن روایتی تصوف کے ناقد بھی ہیں۔
سیاسی فکر کا یہ عالم ہے کہ ان کے کہنے سے جناح قوم کے قائداعظم ہوگئے اور دنیا کا سب سے بڑا ملک تقسیم کروا دیا لیکن باقاعدہ سیاستدان بھی نہیں ہیں۔
گویا اقبال اردو اور فارسی کے بہترین شاعروں میں ہیں مگر خود، اپنی ذات کے اعتبار سے بنیادی حیثئیت میں شاعر نہیں۔ اقبال اپنے وقت کے سب سے قد آور متکلم اور مُسلم فلسفی ہیں مگر ان کی یہ حیثیت بھی ضمنی ہے۔ اقبال کی سیاسی و سماجی فکر نے ایک ملک کا نقشہ بدل دیا مگر سیاسیات اور سماجیات ان کی شخصیت کی محض ایک شاخ ہے۔ اقبال کو بیک وقت عظیم شاعر، سیاستدان، صوفی اور فلسفی کہہ دینا بھی ان کی شخصیت سے انصاف نہیں کرپاتا۔
دراصل اقبال کی شخصیت اتنی وسیع ہے کہ وہ تصوف، ادب، سیاست اور فلسفہ کی معراج تک پہنچ جاتے ہیں مگر کوئی بھی شئے ان پر حاوی نہیں ہوپاتی۔ بلکہ وہ تصوف، ادب، سیاست اور فلسفہ پر حاوی رہتے ہیں۔ تمام شعبوں کے تنگ نظر چاہتے ہیں کہ #اقبال کسی ایک شئے میں خود کو غرق کردیں۔ مگر ایسا نہیں ہوتا۔ اقبال تصوف، ادب، سیاست اور فلسفہ کو اپنے اندر سما لیتے ہیں۔
مومن کی یہ پہچان کہ گُم اس میں ہیں آفاق !