63

تحریک طالبان سے ماضی میں کوئی بھی معاہدہ کامیاب نہیں ہوا

Spread the love

پشاور(ویب رپورٹ ) ماضی میں ناکام امن معاہدوں کے بعد پاکستان نے ایک بار پھر تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ امن مذاکرات کا آغاز کیا ہے۔ اگر دونوں فریق امن معاہدے پر پہنچ جاتے ہیں تو یہ پاکستانی طالبان کے ساتھ پہلا نہیں بلکہ ساتواں معاہدہ ہوگا۔شکئی، سراروغہ اور سوات میں تین بڑے امن معاہدوں کے علاوہ حکومت نے سابق قبائلی علاقوں میں مختلف عسکریت پسند گروپوں کے ساتھ کم از کم تین امن معاہدے کیے لیکن ملک میں پھر بھی امن قائم نہ ہو سکا اور حکومت کو۔ دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے کئی فوجی آپریشن کرنا پڑے۔تاریخی طور پر دونوں کے درمیان کئی بار بات چیت ہوئی ہے لیکن۔پہلی بار طالبان سے مذاکرات افغانستان میں ہو رہے ہیں جب کہ سابقہ تمام معاہدے پاکستان میں ہوئے تھے۔
پاکستانی حکام نے نیک محمد، بیت اللہ محسود، حافظ گل بہادر، صوفی محمد، مولانا فضل اللہ، فقیر محمد اور منگل باغ کے ساتھ معاہدوں پر دستخط کیے۔ طالبان کے دھڑوں کے ساتھ کوئی بھی معاہدہ چند ماہ سے زیادہ عرصہ تک نہیں ہوا۔ اگرچہ باضابطہ طور پر تحریک طالبان کی تشکیل دسمبر 2007 میں ہوئی تھی۔

سیکیورٹی اور دفاعی تجزیہ کار اور سابق سیکرٹری سیکیورٹی سابق فاٹا، بریگیڈیئر (ریٹائرڈ) محمود شاہ نے کہا کہ طالبان کے ساتھ درجنوں مرتبہ مذاکرات اور کئی امن معاہدے ہوئے لیکن ان میں سے کوئی بھی کامیاب نہیں ہوا۔ میں اپنے موقف پر قائم ہوں کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات پہلے کامیاب ہوئے ہیں اور نہ ہی اب کامیاب ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے پیچھے سیاسی مقاصد ہوسکتے ہیں ورنہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کی اب ضرورت نہیں اس طرح کے مذاکرات ماضی میں کبھی امن نہیں لائے۔ کیا ہم وہی غلطیاں دہرائیں گے؟
پاکستانی افواج انہیں پہلے ہی شکست دے چکی ہیں اور ہم انہیں اپنے معاشرے میں کیوں واپس لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔جہاں انھوں نے ہزاروں افراد کو شہید کیا طالبان اب بہت کمزور ہوچکے ہیں لہذا ان سے مذاکرات کی کوئی ضرورت نہیں ورنہ وہ ایک بار پھر مضبوط ہوں گے۔
ایک سینئر صحافی اور امن اور تنازعات کے ماہر اسماعیل خان حالیہ مذاکرات کے بارے میں پر امید ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ماضی اور موجودہ حالات میں بڑا فرق ہے۔ اس مرتبہ افغانستان میں افغان طالبان پاکستانی طالبان کو امن معاہدے پر مجبور کررہے ہیں کیونکہ وہ افغان طالبان کی پناہ میں ہیں لہذا وہ امن مذاکرات کی گارنٹی بھی دیں گے۔ انھوں نے کہا کہ ماضی کے مذاکرات کی ناکامی کی بڑی وجہ غیرملکی دہشتگرد تنظیموں کی موجودہ بھی تھی جو پاکستانی طالبان کے ساتھ مل کر دہشتگردی میں ملوث تھیں۔اسماعیل خان نے کہا کہ مذاکرات کے لئے ملک میں سیاسی اتفاق رائے ناگزیر ہے کیونکہ معاہدے کی صورت میں تمام معاملات کو اتقاق رائے کے بغیر طے نہیں کیا جاسکتا ۔
اپریل 2004 میں، نیک محمد وزیر اور پاکستانی حکام کے درمیان امن کے لیے پہلا شکئی معاہدہ طے پایا۔ یہ معاہدہ مارچ 2004 میں حکومت کی جانب سے فوجی آپریشن شروع کرنے کے بعد ہوا تھا تاکہ نیک محمد پر جنوبی وزیرستان میں عرب، چیچن اور ازبکوں سمیت غیر ملکی عسکریت پسندوں کی حمایت بند

کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جا سکے۔
امن معاہدے کے ایک حصے کے طور پر، پاکستانی حکومت نے طالبان قیدیوں کو رہا کرنے، قبائلیوں کو آپریشن کے دوران املاک کو پہنچنے والے نقصان کا معاوضہ ادا کرنے پر اتفاق کیا۔
نیک محمد نے غیر ملکی عسکریت پسندوں کو رجسٹر کرنے اور افغانستان میں سرحد پار سے حملے روکنے پر اتفاق کیا۔معاہدے پر دستخط کے بعد نیک محمد نے غیر ملکی عسکریت پسندوں کو حکومت کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد حکومت نے جون 2004 میں ایک اور فوجی آپریشن شروع کیا۔
نیک محمد جون 2004 میں امریکی ڈرون میزائل کے حملے میں مارا گیا۔دوسرا معاہدہ فروری 2005 میں پاکستانی حکومت نے جنوبی وزیرستان کے علاقے سراروغہ میں بیت اللہ محسود کے ساتھ کیا۔
حکومت نے بیت اللہ محسود یا ان کے حامیوں کو نشانہ نہ بنانے پر اتفاق کیا اور انہوں نے پاکستانی فورسز پر حملہ نہ کرنے اور غیر ملکی عسکریت پسندوں کو پناہ دینے سے انکار کرنے پر اتفاق کیا تاہم اس کے بعد کے مہینوں میں جنوبی وزیرستان میں فوج اور طالبان عسکریت پسندوں کے درمیان جھڑپوں میں اضافہ ہوا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں