لاہور ( طیبہ بخاری سے ) طے ہو جانا چاہیے کہ ہمیں کتنے ڈاکٹرز، انجینئرز ، کتنے اساتذہ ، کتنے آئی ٹی ماہرین اور کتنے مولوی چاہئیں،افسوس اب یہ بحث چل پڑی ہے کہ ہمیں سائنس چاہئے نہ ترقی ۔طالبان اب اسلامی معاشی نظام کیوں نہیں لا رہے ؟ افغانستان کی آدھی سے زیادہ آبادی بھوک کا شکار ہے طالبان اُس امریکہ کے پاس کشکول کیوں لیکر جا رہے ہیں جس نے لاکھوں افغانوں کو مارا ہے۔ڈر لگ رہا ہے کہ کہیں طالبان پاکستان کے حوالے سے منصف نہ بن بیٹھیں ۔80ہزار پاکستانیوں کی جانیں گئیں ، بچے مارے گئے، اور اب سیز فائر کر دیا گیا دہشتگردی کیخلاف نیشنل ایکشن پروگرام کی طرف ہمیں واپس جانا چاہئے ۔ ان خیالات کا اظہار معروف تجزیہ کار ، سینئر کالم نگار امتیاز عالم نے ”بدلو “ کے یو ٹیوب چینل کے پروگرام ”بیانیہ“ میں گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔
پروگرام کی میزبان ساشہ جاوید ملک تھیں جبکہ مہمان تجزیہ کار علامہ صدیق اظہر تھے ۔ پروگرام میں گفتگو کرتے کرتے ہوئے امتیاز عالم نے ملک میں یکساں نصاب ، اقلیتوں، خواتین کے حقوق ، ٹی ایل پی سے مذاکرات اور خطے میں بڑھتی انتہا پسندی پر تفصیلی گفتگو کی ۔ امتیاز عالم کا کہنا تھا کہ ایک عرصے سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ ریاستی اداروں نے مذہبی قوتوں کو اپنا اتحادی بنایا۔یہ بحث تو قرار داد مقاصد سے شروع ہوگئی تھی کہ پاکستان اسلامی ریاست ہو گا یا قومی؟پھر قومی ریاست کے تصور سے جان چھڑا لی گئی اور پاکستان اسلامی ریاست بن گیا ۔صرف1953ءمیں ایک واقعہ ہے جب فرقہ وارانہ فسادات میں مذہبی قوتوں کے سامنے ریاست کھڑی ہوئی تھی،جنرل اعظم خان پہلے اور آخری جرنیل تھے جنہوں نے فرقہ واریت کو روکا جنرل اعظم خان کے بعد ریاست کبھی مذہبی قوتوں کیخلاف کھڑی نہیں ہوئی ۔
امتیاز عالم کا اپنے تبصرے میں واضح الفاظ میں کہنا تھا کہ افغان جہاد شروع ہوتے ہی دنیا بھر سے جہادی یہاں آئے جنرل ضیاءالحق کے دور بدترین دور تھا
جس میں پوری قوم کو جہاد پر لگا دیا گیا ضیاءدور میں صرف اقتدار کیلئے مذہبی انتہا پسندی اور اسلام کا لفظ استعمال کیا گیا ،س دور میں کتابیں ، نصاب ، فلمیں ، ڈرامے سب کچھ بدل دیا گیا ۔تحریک انصاف نے جو”یکساں نصاب“ رائج کیا اسے دیکھ کر تو ایسا لگتا ہے کہ پبلک سکول کو مدارس سے بد تر کر دیا گیا ہے۔مدارس تو اورنگزیب کے زمانے کا نصاب پڑھا رہے ہیں ،مدارس کا نصاب تبدیل کرنے کی بجائے اُلٹا سکولوں کا نصاب تبدیل کر دیا گیا تعلیمی ادارے کنفیوژن کا شکار ہو چکے ہیں ۔سمجھ نہیں آتی کہ ہم معاشرے میں ہم کتنے مولوی چاہتے ہیں ۔۔۔؟طے ہو جانا چاہیے کہ ہمیں کتنے ڈاکٹرز، انجینئرز ، کتنے اساتذہ ، کتنے آئی ٹی ماہرین اور کتنے مولوی چاہئیں ہیں افسوس کہ اب یہ بحث چل پڑی ہے کہ ہمیں سائنس چاہئے نہ ترقی ۔۔۔ طالبان اب اسلامی معاشی نظام کیوں نہیں لا رہے ؟ افغانستان کی آدھی سے زیادہ آبادی بھوک کا شکار ہے ،طالبان اُس امریکہ کے پاس کشکول کیوں لیکر جا رہے ہیں جس نے لاکھوں افغانوں کو مارا ہے ،کیوں امریکہ کے آگے ہاتھ پھیلائے جا رہے ہیں ؟مدارس میں تعلیم ہی مسلک اور فرقے کی دی جا رہی ہے، درسِ نظامی بھی پڑھایا نہیں جا رہا مذہب کو ریاست سے علیٰحدہ ہونا چاہئے یہی قائد اعظمؒ کی منشاءتھی ۔ آپ دینیات ، پڑھائیں ، دنیاوی علم پڑھائیں ، تمام مذاہب پڑھائیں ، سائنسی علوم بھی پڑھائے جائیں۔ سوال یہ ہے کہ ہم کیسی نسلیں چاہتے ہیں 21ویں صدی کی یا قرونِ اولیٰ کی ؟
امتیاز عالم کا کہنا تھا کہ نواز شریف کے دور میں تو عمران خان طالبان کا دفتر کھولنے اور انکا نمائندہ بننے کو تیار ہو گئے تھے ۔ایک طرف وزیر اطلاعات ریاست کے پیچھے ہٹنے کی بات کر رہے ہیں اور دوسری جانب تحریک انصاف کے اعجاز چودھری سعد رضوی کو ہار پہنانے کی بات کرتے ہیں ٹی ایل پی اگلے انتخابات میں نواز لیگ کو ووٹوں کے حوالے سے بڑا ”ڈینٹ“ ڈالے گی ۔
خطے کی صورتحال کے حوالے سے امتیاز عالم کا کہنا تھا کہ مستقبل میں معاشرہ مذہبی ہوتا نہیں فرقہ وارانہ تقسیم ہوتا نظر آ رہا ہے صرف اندر سے خطرہ نہیں بلکہ پورے خطے میں خطرہ پیدا ہو چکا ہے،بھارت میں ہندو انتہا پسندی بڑھ رہی ہے ، بنگلہ دیش میں مندروں پر حملے ہو رہے ہیں بھارت جمہوریہ کے راستے سے ہٹ رہا ہے اور ہندو راشٹریہ کی جانب بڑھ رہا ہے ۔ افغانستان ، سری لنکا ، بنگلہ دیش ، بھارت اور پاکستان پورے خطے میں انتہا پسندی کا کھیل شروع ہو چکا ہے سری لنکا میں راجہ پاکسے مسلم لاءلا رہے ہیں ، ناجانے وہ کس طرف چل پڑے ہیں ۔
ملک میں بڑھتی انتہا پسندی کے حوالے سے امتیاز عالم کا کہنا تھا کہ انتہا پسندی کو روکنا ہے تو مذہب کو ریاست سے الگ رکھنا ہو گا ہر کسی کو مذہبی آزادی ملنی چاہئے ۔جسٹس جیلانی نے اقلیتوں کے حوالے سے بڑا تاریخ ساز فیصلہ دیا تھا ، انہوں نے کمیشن بھی بنایا لیکن اس پر عمل ہی نہیں ہو سکا ۔ہم جدید قانون کی طرف نہیں بلکہ انگریز کے دور سے بھی قبل کے دور میں جا رہے ہیں ،خاندانی منصوبہ بندی اور بچیوں کے سن بلوغت پر بات کی جائے تو فتوے آنا شر وع ہو جاتے ہیں ۔سارے کا سارا مکالمہ اور بیانیہ مولویوں کے حوالے کر دیا گیا ہے،ڈر لگ رہا ہے کہ کہیں طالبان پاکستان کے حوالے سے منصف نہ بن بیٹھیں 80ہزار پاکستانیوں کی جانیں گئیں ، بچے مارے گئے، اور اب سیز فائر کر دیا گیا ۔دہشتگردی کیخلاف نیشنل ایکشن پروگرام کی طرف ہمیں واپس جانا چاہئے ۔
نوٹ:پروگرام “بیانیہ “دیکھیے “بدلو” کے یو ٹیوب چینل پر