71

عاصمہ جہانگیر کانفرنس ….سابق وزیر اعظم نواز شریف کی تقریر

Spread the love

سابق وزیر اعظم نواز شریف نے اتوار کی شام صوبہ پنجاب کے شہر لاہور میں عاصمہ جہانگیر کانفرنس کے آخری سیشن سے آن لائن خطاب کیا۔ مگر جیسے ہی نواز شریف نے اپنی تقریر شروع کی تو کچھ ہی دیر بعد اس نجی ہوٹل کے ہال میں انٹرنیٹ سروس اچانک معطل ہوگئی۔بعد ازاں اس خطاب میں نواز شریف نے حکومت اور عدلیہ سمیت ریاستی اداروں کو آڑے ہاتھوں لیا اور الزام لگایا کہ ’من پسند ججوں سے اپنی مرضی کے فیصلے لیے جاتے ہیں۔نوازشریف نے اپنےخطاب میں انھوں نے کانفرنس کے انعقاد پر عاصمہ جہانگیر فاؤنڈیشن، سپریم کورٹ بار ایسوشی ایشن، پاکستان بار کونسل اور تمام منتظمین کو مبارکباد دینے اور عاصمہ جہانگیر کی جدوجہد کو خراج تحسین پیش کرنے کے بعد منتظمین کو کانفنرس کی سفارشات کی روشنی میں عملی تحریک شروع کرنے کی تجویز دی۔نواز شریف نے کہا کہ ’آج 74 برسوں کے بعد قوم پھر سے سوال اٹھا رہی ہے اور ہمیں جواب درکار ہے۔ قوم کو جواب درکار ہے۔ یہ پاکستان کے 22 کروڑ عوام کو اس کا جواب درکار ہے۔ اور جب تک اس کا جواب نہیں ملے گا تو ہماری حالت نہیں سدھرے گی۔آج بھی زبان کھینچی گئی ہے ناں، تاریں وغیرہ کاٹ کر۔سوال اٹھانے والوں کو اٹھا دینے اور غائب کر دینے سے کیا سوال ختم ہو جائیں گے؟ آزادی اظہار رائے کے اعتبار سے موجودہ دور سیاہ ترین

دور ثابت ہوا ہے۔آج بھی جو سچ بولے غائب کر دیا جاتا ہے، یا قید کر دیا جاتا ہے یا پھر جو سلوک کیا جاتا ہے وہ آپ جانتے ہیں، گولیاں مار دی جاتی ہیں۔ اخبارات میں کالمز بند کرا دیے جاتے ہیں اور نوکریوں سے برطرف کر دیا جاتا ہے۔‘نواز شریف نے الزام عائد کیا کہ آج بھی ’من پسند ججوں سے اپنی مرضی کے فیصلے لیے جاتے رہے ہیں۔ انھیں بلیک میل کر کے سیاسی مخالفین کے خلاف فیصلے دلوائے جاتے ہیں۔۔۔ فون پر ضمانت نہ دلوانے اور سزائیں دلوانے کے حکم صادر کیے جاتے ہیں۔یہاں سیاسی انجینیئرنگ کی فیکٹیریاں چلائی جاتی ہے۔ آر ٹی ایس یہاں بند ہوتا ہے، ووٹ چوری کیا جاتا ہے۔ منتخب حکومتوں کے خلاف دھرنے کیے جاتے ہیں یا کرائے جاتے ہیں، حکومتیں بنائی جاتی ہیں اور گرائی جاتی ہیں۔‘ای وی ایم مشینوں سے متعلق بل اور دیگر قانون سازی کی تفصیل بتائے بغیر نواز شریف نے کہا کہ یہاں ’قانون سازی بلڈوز کی جاتی ہے، جس طرح دو دن پہلے (پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں) آپ نے دیکھا۔‘مشترکہ اجلاس کا احوال: ’ایسی بھی کیا جلدی ہے کہ 19 نومبر سے پہلے بل منظور کرانے ہیں؟‘نواز شریف نے سوال اٹھایا کہ ’آج انصاف کے منصب پر بیٹھ کر منصف کو یہ سوچنا نہیں چاہیے کہ بین الاقوامی انڈیکس پر پاکستان کی عدلیہ کہاں کھڑی ہے؟‘اپنے خطاب میں سابق وزیر اعظم نے عدلیہ کی کارکردگی اور ماضی میں عدلیہ کے کردار پر بھی سوالات اٹھائے۔نواز شریف نے پوچھا کہ ’کیا عدلیہ نے مارشل لاؤں کو قانونی نہیں قرار دیا؟ کیا کبھی عدلیہ نے توڑے جانے والی اسمبلیوں کو بحال کیا؟ کیا عدلیہ نے آمروں کو آئین میں تبدیلی کی اجازت نہیں دی؟‘نواز شریف نے کہا کہ آئین ہی اداروں کی حدود کی تعین کرتا ہے۔ ’آئین نے لکیر کھینچ دی ہے۔‘سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے آئین کو کاغذ کا ٹکڑا قرار دینے والے بیان کا حوالے دیتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ ’ہمیں بھی اپنا محاسبہ کرنا ہوگا اور کہیں سے شروعات کرنی ہوگی۔‘ہم بھیڑ بکریاں ہیں کہ جس طرف مرضی ہانک دیا جائے۔ ’آئین کہتا ہے مقدس وہی ہے جو آئین کی پاسداری کرے اور جو آئین کی دیواریں پھلانگے وہ مجرم ہے۔ اس ملک کے ساتھ اب گھناؤنا کھیل بند ہونا چاہیے۔ ہم سب کو مل کر ایک قومی بیانے پر متفق ہونے کی ضرورت ہے۔جب ہم نے اپنا ’ہاؤس ان آرڈر‘ کرنے کی بات کی تو ہمارے خلاف ڈان لیکس کا ڈرامہ رچایا گیا، جھوٹے مقدمات بنا کر سزائیں دلوائی گئیں۔‘’وقت آ گیا ہے کہ اب ہمیں آئین، قانون اور جمہوریت کی خاطر ایک پلیٹ فارم پر اکھٹا ہونا ہو گا اور قومی ایجنڈا بنانا ہوگا اور پھر اسے تحریک کی شکل دینی ہو گی۔ اس کانفرنس کی سفارشات کی روشنی میں عملی اقدمات اٹھائے جائیں۔ ’جس گہری کھائی میں ہم گر چکے ہیں، اس ملک کو وہاں سے نکالا جائے، اگر ایسا نہ کیا گیا تو پھر تاریخ ہم سب کو معاف نہیں کرے گی۔‘

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں