86

چیف جسٹس گلزار احمد کی سختی سے تردید، کوئی ان پر یا ان کے ججز پر دباؤ نہیں ڈال سکتا۔

Spread the love

چیف جسٹس گلزار احمد کی سختی سے تردید، کوئی ان پر یا ان کے ججز پر دباؤ نہیں ڈال سکتا۔ صحافی احمد نورانی کی جانب سے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی آڈیوز جاری۔ آڈیو ٹیپ میں نواز شریف اور مریم نواز کو الیکشن سے پہلے سزا دینے کی ہدایات موجود۔

ثاقب نثار نے آڈیو کی تردید کر دی۔ اگر آواز سابق چیف جسٹس کی نہیں ہے تو اس کا فرنزاک کروا لیں۔ احمد نورانی کو پلک چھوڑ کر باہر جانا پڑا تھا انہوں نے کہا ہے کہ اس آڈیو کا انہوں نے فرنزاک کروایا ہے۔ 3 اپریل کو نواز شریف کے بچوں کی چار کمپینوں کا ذکر پانامہ پیپرز میں آیا۔ جس میں نواز شریف کانام نہیں تھا۔ 6اکتوبر کو ڈان لیکس آ گئی جس پر وزیر اعظم اور فوج میں جھگڑا ہو گیا۔ جس میں سول قیادت نے ملٹری لیڈر شپ کو کہا تھا کہ دھشت گردوں کے خلاف کاروائی نہ کی گئی تو پاکستان عالمی سطح پر تنہا رہ جائے گا۔ 30 دسمبر 2016 ثاقب نثار چیف جسٹس بن گئے اور انہوں نے پانامہ لیکس کیس میں پانچ رکنی بینچ تشکیل دے دیا۔ 4جنوری کو کیس کی سماعت شروع ہوئی، 23 فروری کو سماعت مکمل ہوئی اور 19اپریل کو فیصلہ آیا، جس کے مطابق 2 ججز جسٹس کھوسہ اور موجودہ چیف جسٹس گُلزار احمد نے نواز شریف کو نااہل قرار دیا اور 3 ججز نے جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیا۔ جے آئی ٹی کے لیے آئے نام سپریم کورٹ نے ردا دئیے اور 5 مئی کو مانیٹرنگ بینچ جس میں جسٹس اعجاز افضل، جسٹس عظمت سعید اور جسٹس اعجازالحسن تھے نے ایک جے آئی ٹی تشکیل دی۔ سینئر صحافی امتیاز عالم نے نواز شریف کو مشورہ دیا تھا کہ وہ جے آئی ٹی میں پیش نا ہوں اور استعفی دے دیں۔ نواز شریف نے اس بات اتفاق کر لیا تھا تاہم پارٹی نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوں۔ جولائی کو جے آئی ٹی نے اپنی 10والیم رپورت سپریم کورٹ مین پیش کر دی اور والیم نمبر 10 خفیہ رکھنے کی استدعا کی۔

جولائی 28 کو نواز شریف کو سپریم کورٹ نے نااہل قرار دے دیا، اور نیب کو ان کے خلاف ریفرنسز بنانے کا حکم دیا گیااور احتساب عدالت 6 ماہ میں فیصلہ کرے۔ اس سے یہ بات عیاں ہو رہی ہے کہ اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار کس قدر کیس میں دلچسپی لے رہے تھے کہ انہوں نے احتساب عدالت کو مخصوص وقت میں فیصلہ کرنے کا پابند کر دیا۔ پھر ثاقب نثار نے احتساب عدالت کو 20 روز میں فیصلہ کرنے کا حکم دیا. الیکشن سے 15 روز قبل نواز شریف کو ایک کیس میں سزا سنا دی گئی اور ایک کیس میں ان کو بری کر دیا گیا۔ پھر جج ارشد ملک کی ویڈیو سامنے آئی جس میں وہ شراب کے نشے میں دھت یہ بتا رہے تھے کہ ان پر دباؤ ڈال کر نواز شریف کو سزا دلوائی گئی۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے ایون فیلڈ کیس مین نواز شریف اور مریم نواز کی ضمانت منظور کر لی تھی۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ 43 صفحات کا فیصلہ ضمانت میں لکھا۔ جس میں انہوں نے لکھا کہ مریم نواز پر کوئی کیس نہیں بنتا۔ اس فیصلے پر ثاقب نثار بہت تلملائے، یہ بات ان تما م حقائق سے واضح ہے کہ وہ کس طرح اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر نواز شریف کو سزا دلوانے پر تلے بیٹھے تھے۔ نواز شریف کو اقامہ کی بنیاد پر نا اہل کیا گیا تھا۔ جسٹس ثاقب نثار اتفاق فاؤنڈری کے لیگل ایڈوائز بھی رہ چکے ہیں۔ ثاقب نثار میاں شریف کے لاڈلے تھے ان کو سیکرٹری لاء اور پھر ہائی کورٹ کا جج بھی میاں شریف کی سفارش پر بنایا گیا تھا۔

اگر یہ ثابت ہو گیا کہ یہ آڈیو ٹیپ ثاقب نثار کی ہے تو میاں نواز شریف کے خلاف کیس مکمل طور پر ختم ہو جائے گا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کو چاہیے کہ وہ ثاقب نثار کو طلب کرے اور رانا شمیم کے بیان حلفی کی تحقیات کروائے۔ افسوسناک بات ہے ایک وزیر اعظم کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا دوسری کو راولپنڈی میں شہید اور تیسرے کو 3 بار نکال باہر کیا گیا
نواز شریف جنرل ضیاء کی لائی ہوئی ترامیم کے آرٹیکل 62 اور 63 کا شکار ہوئے۔ ریاستی اداروں نے جو کچھ کیا وہ ہی ان کے منہ پر آن پڑا ہے۔

نوٹ:پروگرام “انگیخت “دیکھیے “بدلو” کے یو ٹیوب چینل پر

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں