کراچی ( بدلو نیوز )سپریم کورٹ آف پاکستان کی کراچی رجسٹری نے شہرِ قائد میں پارک کی بحالی سے متعلق سماعت کے دوران پی ای سی ایچ ایس میں 4 جھیلیں بحال کرنے کا حکم دے دیا۔چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے سپریم کورٹ آف پاکستان کی کراچی رجسٹری میں کراچی میں پارک کی بحالی سے متعلق کیس کی سماعت کی۔دورانِ سماعت کراچی کے ایڈمنسٹریٹر مرتضیٰ وہاب اور سماجی کارکن امبر علی بھائی عدالتِ عظمیٰ میں پیش ہوئے۔سماجی کارکن امبر علی بھائی نے عدالت کو بتایا کہ ہم نے 7 اضلاع سے متعلق رپورٹ پیش کر دی ہے۔چیف جسٹس پاکستان نے ان سے سوال کیا کہ کراچی کے جھیل پارک میں پہلے 2 جھیلیں تھی، یہ جھیلیں کیسے بند ہو گئیں؟امبر علی بھائی نے جواب دیا کہ وہ جھیلیں بہت سال پہلے بند ہو چکی ہیں۔چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے استفسار کیا کہ کے ایم سی والے کہاں ہیں؟امبر علی بھائی نے بتایا کہ ایک ایڈمنسٹریٹر کو کرپشن کے چارجز میں ہٹایا گیا ہے۔چیف جسٹس نے کراچی کے ایڈمنسٹریٹر مرتضیٰ وہاب سے مخاطب ہو کر کہا کہ کراچی میں 4 جھلییں تھیں، ایڈمنسٹریٹر صاحب اب وہ جھیلیں کہاں ہیں، یہ بتائیں؟
ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضیٰ وہاب نے بتایا کہ موجودہ صورتِ حال میں جھیل پارک کے 2 حصے ہیں۔چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے پھر سوال دہرایا کہ یہ سب قدرتی جھیلیں تھیں، کیسے ختم ہو گئیں؟
جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال کیا کہ کیا یہ جھلیں مٹی ڈال کر بند کر دی گئی ہیں؟سماجی کارکن امبر علی بھائی نے عدالت کو بتایا کہ جی مٹی ڈال کر یہ جھیلیں بند کر دی گئی ہیں، شیشم کے سارے درخت کاٹ دیئے گئے ہیں، اب صرف کانوکارپس کے درخت ہیں۔ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ ہمارے پڑوس میں ایک کنواں بھی تھا، جسے مٹی ڈال کر بند کر دیا گیا ہے۔درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ جھیل پارک کے ساتھ والے پارک کی جگہ پر دکانیں بنا دی گئی ہیں، اس ضمن میں کمشنر نے برائے نام نوٹس ایشو کیئے، مگر دکانیں اب بھی موجود ہیں۔چیف جسٹس نے درخواست گزار شہری سے مخاطب ہو کر کہا کہ خان صاحب! ایک تصویر سے سمجھ نہیں آئے گی، تفصیل سے بتائیں۔ایڈمنسٹریٹر مرتضیٰ وہاب نے عدالت کو بتایا کہ یہ دکانیں جھیل پارک کی زمین پر نہیں بنائی گئی ہیں۔درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ سر یہ سارے ملے ہوئے ہیں، پی ای سی ایچ ایس والے بھی ملے ہوئے ہیں، میرے پاس 1961ء کا سائٹ پلان موجود ہے، ہمارے بچوں کے پارک پر قبضہ کیا ہوا ہے، وہاں موالی بیٹھے رہتے ہیں۔عدالت نے شہری سے سوال کیا کہ کلب اور پارک کی زمین پر یہ دکانیں بنائی گئی ہیں؟درخواست گزار نے جواب دیا کہ جی سر یہ کلب اور پارک کی جگہ تھی پہلے جس پر دکانیں بنائی گئی ہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ یہاں تو بارش ہوتی ہے تو سیلاب آ جاتا ہے۔ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضیٰ وہاب نے عدالت کو بتایا کہ ماہرین سے معلومات لے کر رپورٹ پیش کریں گے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ پچھلے 5 سال میں کتنے روڈ کمرشلائز کیئے گئے ہیں؟ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضیٰ وہاب نے بتایا کہ کسی بھی روڈ کی سندھ حکومت نے کمرشلائزیشن نہیں کی۔امبر علی بھائی نے عدالت کو بتایا کہ 29 کمرشل روڈز نوٹیفائی ہیں، نعمت اللّٰہ خان نے انہیں فنڈز سےمتعلق نوٹیفائی کیا تھا، مگر مقاصد حاصل نہیں ہوئے، جماعتِ اسلامی کے بعد ایم کیو ایم لوکل گورنمنٹ میں آئی اور پیسے بنانا شروع کر دیئے، اس کے بعد شہر میں کمرشلائزیشن ہوئی ہے اور شہر تباہ ہوا۔ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضیٰ وہاب نے بتایا کہ سارے بہادر آباد، شرف آباد اور دیگر علاقوں میں ہزار گز کے بنگلے کمرشل بلڈنگز میں بدل گئے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال کیا کہ اس کا اب حل کیا ہے؟ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضیٰ وہاب نے جواب دیا کہ 70ء، 80ء کی دہائی میں جہاں پارکنگ تھیں، اب وہاں دکانیں بنی ہوئی ہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کیا کر رہی ہے، پیسے لے کر اجازت دے دیتی ہے، لوگ خرید لیتے ہیں، پھر گرانے کے لیے آ جاتے ہیں۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ یونیورسٹی روڈ پر ایک طرف پارک اور کھیلوں کے میدان بنے تھے۔ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضیٰ وہاب نے بتایا کہ چائنہ پورٹ کے ساتھ 20 ایکڑ زمین پر اربن فارسٹ بنایا ہے، پلانٹیشن کے لیے وہاں ہمیں پولیس بٹھانا پڑی۔
امبر علی بھائی نے کہا کہ بیچز لے لئے گئے ہیں، وہاں کچھوؤں نے آنا چھوڑ دیا ہے۔ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ ملٹی پل دائرہ اختیارات کے مسائل ہیں۔امبر علی بھائی نے کہا کہ بورڈ آف ریونیو نے مائی کلاچی روڈ پر 75 ایکڑ زمین الاٹ کی، اس کو کینسل ہونا چاہیئے، پورے باتھ آئی لینڈ و دیگر علاقوں کا فضلہ وہاں گرتا تھا، اب اسے روک دیا گیا ہے۔مرتضیٰ وہاب نے بتایا کہ فرینڈز آف کراچی کے نام سے پلیٹ فارم بنائیں گے، لوگ آئیں اور اپنی تجاویز دیں۔چیف جسٹس پاکستان نے میونسپل کمشنر سے مخاطب ہو کر ہدایت کی کہ میونسپل کمشنر صاحب! ادھر آ جائیں۔میونسپل کمشنر نے عدالت کو بتایا کہ میں نے تو ابھی 3 دن پہلے ہی چارج لیا ہے۔چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے ان سے سوال کیا کہ آپ کیسے غیر قانونی تعمیرات ختم کریں گے؟ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضیٰ وہاب نے بتایا کہ ماہرین کی مدد سے مارکنگ کر کے کارروائی کریں گے۔چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے کہا کہ میں نے یہاں بہت وقت گزارا ہے، بہترین علاقہ تھا، ہم نے اپنے بچوں کے لیے کیا چھوڑا ہے؟ کوئی تفریح نہیں ہے۔مرتضیٰ وہاب نے بتایا کہ کراچی میں 2003ء میں کمرشلائزیشن کی گئی، 26 سڑکوں کو کمرشلائز کیا گیا۔چیف جسٹس پاکستان نے ان سے استفسار کیا کہ آپ اس کو ختم نہیں کر سکتے؟ کچھ تو کریں۔مرتضیٰ
وہاب نے بتایا کہ 2 دفعہ شہری حکومت نے کمرشلائزیشن کی، عدالتوں نے فیصلہ برقرار رکھا۔امبر علی بھائی نے بتایا کہ کمرشل نوٹیفائڈ 29 روڈ ہیں، سول سوسائٹی نے جن کی مخالفت کی تھی۔درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ اس وقت کی شہری حکومت نے فنڈز جنریٹ کرنے کے لیے کمرشلائزیشن کی تھی۔چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے کہا کہ شارعِ فیصل پر بھی سارے بنگلے تھے جو ختم ہو گئے ہیں۔ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضیٰ وہاب نے بتایا کہ کمرشلائزیشن کے بعد ٹاورز بنتے چلے گئے، شارعِ پاکستان خوبصورت سڑک تھی مگر اسے بھی کمرشلائزڈ کر دیا گیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ بڑے شہروں میں کثیر المنزلہ عمارتیں ہوتی ہیں مگر پراپر پلاننگ تو ہو، سوک سینٹر کے پاس مشرق سینٹر کا حال دیکھیں، تجاوزات ہٹائیں، سوک سینٹر سے چھیپا کو ہٹائیں، وہ گرین بیلٹ پر بیٹھے ہیں، شارع فیصل پر لائٹ کون جلاتا ہے؟ عموماً اندھیرا رہتا ہے۔مرتضیٰ وہاب نے بتایا کہ کے ایم سی کی حدود میں لائٹس آن رہتی ہیں، جبکہ کنٹونمنٹ کے علاقوں میں بند رہتی ہیں۔چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ میں نے بھی یہی نوٹ کیا ہے، کنٹونمنٹ والوں کا کیا مسئلہ ہے؟ کنٹونمنٹ والوں پر قانون لاگو نہیں ہوتا کیا؟ کھمبوں پر سیاسی جماعتوں کے جھنڈے لگے ہوتے ہیں، پرچم لگانا ہے تو پاکستان کا پرچم لگائیں۔سپریم کورٹ نے پی ای سی ایچ ایس میں 4 جھیلیں بحال کرنے کا حکم دے دیا۔کے ایم سی اسپورٹس کمپلیکس کشمیر روڈ سے ملبہ اٹھانے کا حکم دیتے ہوئے چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے کہا کہ کشمیر روڈ پورے پاکستان میں سب سے بہترین روڈ تھا، اس پر سے قبضہ ہم نے ختم کرایا مگر ابھی تک ملبہ نہیں اٹھایا گیا۔درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ آپ کی مدت ختم ہو تاکہ یہ اپنا کاروبار پھر سے شروع کریں۔