لاہور ( طیبہ بخاری سے )معروف سینئرتجزیہ کار امتیاز عالم نے کہا ہے کہ ضیاءالدین صاحب نے 6دہائیوں تک صحافت ، جمہوریت ، انسانی حقوق اورامن کیلئے خدمات انجام دیں انکے انتقال سے قومی خلاءپیدا ہو گیا ہے،مجھے انکے انتقال کی خبر انکے بیٹے ڈاکٹر اطہر نے دی۔یو ٹیوب چینل”بدلو “ پر اپنے پروگرام ”انگیخت “ میں میزبان شہ پارہ سلیم سے گفتگو کرتے ہوئے امتیاز عالم نے کہا کہ ضیاءالدین صاحب گذشتہ 1ماہ سے وینٹی لیٹر پر تھے ، ٹھیک ہو گئے تھے لیکن پھر کومہ میں چلے گئے تھے
،ضیاءصاحب صحافت کے لیجنڈز میں سے تھے ، کبھی اپنی ایمانداری پر حرف نہیں آنے دیا تمام عمر عوامی مفاد کی نگہبانی کی، پروفیشنل سٹینڈرڈز کو گرنے نہیں دیا ،بے باک ، سادہ ، جوانمرد اور مقابلہ کرنیوالے تھے پاکستان بننے سے لیکر اب تک فکری ارتقاءمیں انکا کردار نہایت اہم تھاہزاروں ایڈیٹوریل ، ہزاروں کالم لکھے ، ابھی بھی ہفتے میں تین سے چار کالم لکھتے تھے۔
پروگرام ”انگیخت“ میں امتیاز عالم نے ضیاءالدین مرحوم کی ابتدائی زندگی کے حوالے سے بتایا کہ ضیاءصاحب مدراس(تامل ناڈو) میں پیدا ہوئے ، ڈھاکہ یونیورسٹی سے فارمیسی کی تعلیم حاصل کی، کرکٹ کے کوچ بھی رہے،کراچی آکر ایم اے جرنلزم کیا ، فارمیسی کی بجائے انکا رحجان لکھنے پڑھنے کی
طرف زیادہ تھا ”د ی ا کانومسٹ“ کے ایڈیٹر بنے ، کراچی کے اخبار میں کام کیا، پی پی آئی نیوز ایجنسی میں طویل عرصہ خدمات کے بعد ”ڈان “ جوائن کیا”نیوز “ کے ایڈیٹر بنے ، ”ایکسپریس ٹریبیون“ لانچ کیا، ”مسلم “ میں بھی کام کیا۔ضیاءالدین صاحب نے صحافت اورمعاشرے کی بہتری کیلئے طویل کام کیاہر آمریت کیخلاف کھڑے رہے ، بہت مشکلات سہیں تحقیقی صحافت کی داغ بیل ڈالی، کامرس کے شعبے پر بہت عبور تھا۔”نیوز “ کے ایڈیٹوریل بورڈ میں ہم نے اکٹھے کام کیا۔تمام عمر صحافیوں کے حقوق کیلئے لڑتے رہے، پی ایف یو جے میں بہت ایکٹو تھے،وہ میڈیا اور آئندہ نسلوں کیلئے رول ماڈل ہیں۔ضیاءصاحب
کی بیگم بہت نفیس خاتون ہیں ، بہت اچھا حیدر آبادی کھانا کھلاتی ہیں ۔
”سیفما “ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے امتیاز عالم نے بتایا کہ جب ہم نے ”سیفما“ بنائی تو ضیاءالدین صاحب اس کے بانیوں میں سے تھے ،ساﺅتھ ایشیاءفری میڈیا ایسوسی ایشن پاکستان چیپٹر کے پہلے صدر وہی تھے سری لنکا ، بنگلہ دیش ، بھارت اور پاکستان کی تمام جرنلسٹ کمیونٹی انکا بہت احترام کرتی تھی20سال تک وہ ”سیفما“ سے وابستہ رہے ہماری فری میڈیا ایسوسی ایشن کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں بھی رہے۔ضیاءالدین صاحب ان چند صحافیوں میں سے تھے جن کے دامن پہ کوئی داغ نہیں تھاانسانی حقوق، اقلیتوں کے حقوق ، خواتین کے حقوق اور خطے میں امن کیلئے انہوں نے بہت کام کیا،انکے انتقال
سے سول سوسائٹی بڑے دانشور سے محروم ہو گئی ہے ۔انکاکسی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں تھا ، بینظیر بھٹو سے اچھے تعلقات رہے لیکن ان کے ساتھ بھی کھلم کھلا اختلافات کا اظہار کیا کرتے ، انکی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ جس بات کو سچ سمجھتے اس کو حقائق کی بنیاد پر پرکھتے پھر پیش کرتے ،بہت حلیم اور بردبار تھے کبھی ان کی زبان سے بدگوئی بدکلامی نہیں سنی، کمال کے لکھاری تھے ہم نے
بہت بڑا انسان کھو دیا ۔ ہر کانفرنس میں ہم اکٹھے ہوا کرتے تھے وہ سیفما کی روح تھے ، میں سمجھتا ہوں کہ انہوں نے حقِ زندگی ادا کر دیا۔”بدلو “ کی نشریات میں وہ ہمیشہ حصہ لیا کرتے ، ہوا میں باتیں نہیں کرتے تھے بہت تلخ تجزئیے کیا کرتے ،کاش ہم سب ان کے نقش قدم سے کچھ سیکھ سکیں۔