68

سینئر صحافی ضیاء الدین صاحب کا اپنی وفات سے قبل کشمیر کے حوالے ایک یاد گار انٹرویو

Spread the love

لاہور (بدلو نیوز ) سینئر صحافی ضیاء الدین صاحب کا اپنی وفات سے قبل کشمیر کے حوالے سے شکیل چودھری کو مارچ 2021 میں دیا گیا ایک یاد گار انٹرویو قارئین کے لیے بدلو نیوز پر شائع کیا جا رہا ہے۔

ضیاء الدین صاحب 55 سال تک شعبہ صحافت سے منسلک رہے۔ ان کو خراج تحسین پیش کرنے کا ای بہترین ذریعہ یہ کہ ہم ان کے خیالات کو آپ تک پہنچائیں۔

کشمیر کے مسلئے پر سمجھ بوجھ رکھنے والے طبقے کا خیال ہے کہ پاکستان کشمیر پر اپنی پالیسی کو ری وزٹ کرے۔ آج سے تقربیا 20 سال قبل کشمیر کا مسئلہ صرف سینٹرل پنجاب کا مسئلہ بن کر رہ گیا تھا۔ ہم کشمیر کے مسئلے کو زندہ رکھ کشمیریوں پر ظلم کر رہے ہیں۔ 90 کی دہائی میں نواز شریف جب دو تہائی اکثریت سے وزیر اعظم بنے تو انہوں ڈیکلئر کیا کہ کشمیر کا مسئلہ حل ہونا چاہیے اور انہوں بھارتی وزیر اعظم واجپائی سے بات چیت کر کے لاہورڈیکلر یشن جاری کیا تھا۔ جس میں آگے بڑھنے کی بات کی گئی تھی۔ جنرل مشرف نے اس ڈیکلر یشن اور سملہ معاہدے کو عوامی سطح پر مسترد کر دیا تھا۔ جب خو مشرف صدر بنے تو انہوں نے منہموہن سنگھ کے ساتھ مل کر 4 نکاتی فارمولہ بنایا تھا۔ ڈان لیکس کی خبر میں بھی یہی بات ہوئی تھی کہ پاکستان جو مجاہدین کشمیر میں بھیج رہا ہے اس سے پاکستان کی عالمی سطح پر بدنامی ہو رہی ہے اور اس سلسلے میں ہمیں کچھ کرنا چاہیے۔کشمیر کا مسئلہ اگر حل ہو جائے تو پاکستان اور بھارت دونوں کی معشیت میں بہت بہتری آ سکتی ہے۔ پاکستان اور بھارت نے جنگوں سے کچھ حاصل نہیں کیا۔

1997 میں جنرل امجد شعیب کی دعوت پر سٹاف کالج کوئٹہ میں ضیاء الدین صاحب نے ایک بریفینگ دی تھی بھارت کی اکانومی پر اور کہا تھا کہ کشمیر کا مسئلہ حل نا ہوا تو پاکستان کی معشیت کو ناقابل تلافی نقصان ہو گا۔آغا شاہی نے کشمیر کے مسئلے کو اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ ایم ڈی نقوی صاحب نے ایک آرٹیکل لکھا تھا کہ پاکستان کو کشمیر کی جو ہے جیسے کی بنیاد پر حیثیت کو تسلیم کر لینا چاہیے کیوں کہ اس کے علاوہ مسئلہ کشمیر کا کوئی حل نہیں ہے۔ میر عبدالعزیز ایک سینئر صحافی تھے جنہوں نے کہا کہ پاکستان میں بہت کم لوگ ہیں جنہیں مسئلہ کشمیر کی سمجھ ہے۔ سردار شوکت حیات جو کہ تحریک پاکستان کے نوجوان لیڈر نے اپنی کتاب میں لکھیا کہ لارڈماؤنٹ بیٹن نے لیاقت علی خان کے لیے یہ پیغام بھیجا تھا کہ پاکستان حیدر آباد دکن سے سدتبرادر ہو جائے اور کشمیر لے لے۔ پاکستان کی اس وقت کی قیادت نے یہ آفر قبول نا کر کے غلطی کی تھی۔ مودی نے اقتدار میں آ کر قائد اعظم کے دو قومی نظریے کو سچ ثابت کر دیا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں