اسلام آباد(نیٹ رپورٹ) پی ڈی ایم سربراہی اجلاس کا اہم فیصلہ مہنگائی کے خلاف 23 مارچ کو، دو روزہ احتجاج اور خاص بات لندن میں سکونت پذیر اسحاق ڈار کی اجلاس میں ’’انٹری‘‘تھی۔اجلاس سے قبل پی ڈی ایم کی سٹیئرنگ کمیٹی کےاجلاس میں جو سفارشات سربراہی اجلاس کو پیش کی گئی ہیں جن میں استعفے اور لانگ مارچ کا مطالبہ تھا سرفہرست جبکہ استعفوں کے بارے میں مولانا فضل الرحمان نے واضح کر دیا کہ اجلاس میں یہ موضوع زیر بحث آیا تھا
تاہم اس پر عملدرآمد کب اور کیسے کرنا ہے اس کا فیصلہ پی ڈی ایم نے اپنی مرضی سے کرنا ہے جبکہ ’’لانگ مارچ‘‘اب تبدیل ہوکر ’’مہنگائی مارچ‘‘ہو چکا ہے.ولانا فضل الرحمان نے میڈیا بریفنگ کے دوران ’’لانگ مارچ‘‘کا ایک مرتبہ بھی نام نہیں لیا جب ان سے اس بارے میں استفسار کیا گیا تو انہوں نے کوئی واضح جواب نہیں دیا اس طرح دھرنے کی اصطلاح استعمال کرنے سے انہوں نےگریز کیا.منزل ڈی چوک ہوگی یا کوئی اور مقام کے جواب میں مولانا کا کہنا تھا کہ ’’آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا‘‘سربراہی اجلاس کے دوران تمام وقت کئی میڈیا چینلز پر اجلاس کے دوران باہمی اختلافات تلخی اور مولانا فضل الرحمان کے جارحانہ طرز عمل کی خبریں چلتی رہیں، خبروں کے مطابق انہوں نے کہا کہ حکومت کو بار بار وقت دینے سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ جیسے ہم حکومت کے سہولت کار ہیں تاہم اب اس تاثر کو ختم کرنے کا وقت آگیا ہے۔ذرائع سے حاصل کی جانے والی خبروں میں یہ بھی کہا جا رہا تھا کہ نوازشریف نے بھی مولانا کے موقف سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں سنجیدگی سے حکومت کو گھر بھیجنے کےلیے کام کرنا چاہئے تاہم دیگر جماعتوں کی طرف سے تاحال کوئی ردعمل نہیں آیا۔ایک ذریعے کے مطابق مولانا فضل الرحمان نے پی ڈی ایم کی سربراہی چھوڑنے کی دھمکی اس وقت دی جب شہبازشریف کی جانب سے اتفاق رائے سے فیصلہ کرنے کا مشورہ دیا گیا۔