انگیخت: امتیاز عالم
جب بھی 16 دسمبر (1971) آتا ہے تو مشرقی پاکستان میں کھیلی گئی خون کی ہولی اور نسل کشی (Genocide) روح و قلب کو تڑپا دیتی ہے۔ اب ایک دوسرے 16 دسمبر (2014) کو پشاور میں آرمی پبلک سکول کے بچوں کے سفاکانہ قتل عام (Massacre) کی نہ ختم ہونے والی آہیں چین سے جینے نہیں دیتیں۔ کیا کیا انسانی المیے ہیں جو خونیں تقسیم سے اب تک بے کس عوام نے نہیں دیکھے۔ 25 مارچ 1971ءکو ڈھاکہ یونیورسٹی پہ جو شب خون مارا گیا اسے آپریشن سرچ لائٹ کا نام دیا گیا تھا، وہ پورے مشرقی پاکستان میں ساڑھے آٹھ ماہ تک دہرایا جاتا رہا، تاآنکہ بی بی سی سے خبر نشر ہوئی کہ ڈھاکہ کے ریس
کورس گراﺅنڈ میں جنرل نیازی نے بھارت کے جنرل جگجیت سنگھ اروڑا کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے اعلان نامے پر دستخط کردئیے۔ یہ وہی جنرل نیازی تھے جنہوں نے میجر جنرل خادم حسین راجہ کے مطابق کہا تھا ”میں اس حرامزادی (بنگالی) قوم کی نسل بدل دوں گا“۔ اور وہ اس ہلاکو نما قول کو پورا کرنے کے لیے ہر حد کراس کر گئے۔ غیر جانبدار اور عالمی ذرائع اس پر متفق ہیں کہ تین سے پانچ لاکھ مشرقی پاکستانی لقمہ اجل بنے اور دو لاکھ سے زائد عورتیں ریپ کردی گئیں جن کے بچوں کو ”وار چلڈرن“ کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ مغربی پاکستان میں خوفناک سنسر شپ ہی نہیں تھی، بلکہ ہر طرح کی کامیابیوں کے بلیٹن صبح شام جاری ہوتے تھے۔ اس سناٹے میں کراچی کے ایک صحافی اینتھنی مسارن ھاس (Anthony Mascarenhas) کی ایک خبر 13 جون 1971ءکے سنڈے ٹائمز میں نسل کشی (Genocide) کے عنوان سے شائع ہوئی جس نے تمام دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ لیکن اس صحافی کو بال بچوں سمیت اپنے وطن کو خیر باد کہنا پڑا تھا۔ یہ 16 دسمبر کی شرمناک صبح تھی کہ بھارتی میجر جنرل جیکب نے ڈھاکہ پہنچ کر جنرل نیازی کے سامنے بھارتی و مکتی بہینی
کی مشترکہ فوجوں (مترو بہینی) کے سامنے ہتھیار ڈالنے کی دستاویز پر دستخط کرنے کے لیے 30 منٹ کا الٹی میٹم دیا۔ اس کی تفصیل جنرل راﺅ فرمان علی اور بریگیڈیئر صدیق سالک کی کتب اور حمود الرحمان کمشن کی رپورٹ میں بھی ہے۔ جنرل جیکب کے مطابق وہ دل ہی دل میں پریشان تھا کہ کہیں نیازی اس کا بلف کال نہ کردے یعنی انکار نہ کردے تو کیا ہوگا؟ کیونکہ اس نے دل میں سوچا کہ ”میرے پاس تیس میل دور صرف تین ہزار فوجی ہیں جبکہ جنرل نیازی کے پاس ڈھاکہ میں 26,400 فوجی ہیں“۔ لیکن جب جنرل جیکب 30 منٹ بعد جنرل نیازی کے کمرے میں گیا تو وہ شکست خوردہ نظر آیا تو اس کی خاموشی پہ ”میں نے کہا کہ میں تمہاری خاموشی کو ہاں سمجھتا ہوں“۔ پھر 4 بجے سہ پہر جنرل اروڑا کا جہاز ڈھاکہ ایئرپورٹ پہ اترا اور ریس کورس گراﺅنڈ میں لاکھوں لوگوں کے مجمع کے سامنے جنرل نیازی نے ہتھیار ڈال دئیے۔ یہ وہ دن تھا جب جنرل یحییٰ خان نے ہر محاذ پہ دشمن کے خلاف پیش قدمیوں کا اعلان کیا تھا جبکہ عالمی ذرائع ابلاغ ڈھاکہ میں ہتھیار ڈالنے کی خبریں دے رہے تھے۔ مشرقی محاذ پر دباﺅ کم کرنے کے لیے جنرل یحییٰ خان نے 3 دسمبر
1971ءکو آپریشن چنگیز خان کا اعلان بھارت کے کئی ہوائی اڈوں پر حملے کی صورت کردیا اور پاک بھارت جنگ دونوں محاذوں پر باقاعدہ شروع ہوگئی۔ 3 مارچ 1971ءکو قومی اسمبلی کے ڈحاکہ میں ہونے والے اجلاس کے التوا اور 25مارچ کو فوجی ایکشن کے فیصلے کے بعد جنرل یحییٰ خان کا یہ ایک اور مہم جویانہ فیصلہ تھا۔ 13 روزہ جنگ کے خاتمے پر پاکستان اپنا پندرہ ہزار مربعہ کلومیٹر سے زیادہ رقبہ مغربی محاذ پہ بھی گنوا چکا تھا۔ اس گھناﺅنے ڈرامے کا ڈراپ سین ہوا بھی تو 2 جولائی 1972ءکو صدر ذوالفقار علی بھٹو اور وزیراعظم اندرا گاندھی کے مابین شملہ معاہدے کی صورت۔ یہ دلچسپ بات ہے کہ شملہ میں بات چیت ناکام ہوگئی تھی اور بھٹو صاحب واپسی کے لیے چل پڑے تھے کہ ان کا بلف (چکمہ) کام کرگیا اور اندرا گاندھی ان کڑی شرائط سے دستبردار ہوگئیں جن کو بھٹو صاحب نے ماننے سے انکار کردیا تھا۔ شملہ معاہدے کے تحت 93000 جنگی قیدی واپس ہوئے، بھارت نے مقبوضہ علاقے واپس کردئیے سوائے کارگل اور کشمیر کے دوسرے علاقے، مسئلہ کشمیر کو دو طرفہ طور پر حل کرنے پہ اتفاق ہوا اور جنگی جرائم میں مقدمات کا معاملہ نپٹادیا گیا۔ لیکن تاریخ کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ جنرل یحییٰ خان کو پورے فوجی اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا اور پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم کو ایک جھوٹے مقدمے میں پھانسی چڑھا دیا گیا۔ آج کل ہم 1971ءکی جنگ میں کامیابیوں کے جشن جانے کس منہ سے منارہے ہیں؟
دسمبر 1971ءکے المیے کو پچاس برس ہوچلے ہیں۔ نہ حمود الرحمان کمشن رپورٹ (جو کہ بہت اینٹی شیخ مجیب الرحمان ہے) باضابطہ شائع کی گئی اور اس میں ثابت کیے گئے جنگی و انسانی جرائم پہ کسی کے خلاف کوئی مقدمہ چلا نہ کسی کو سزا ملی۔ اور نہ ہی تباہ کن عسکریت پسندانہ اور عوام دشمن ریاستی حکمت عملیوں پہ نظر ثانی کی گئی۔ آمرانہ ریاست ویسی ہی رہی جیسی مشرقی پاکستان کے المیہ سے پہلے تھی۔ اس المیے کے فوری بعد 1974ءمیں بلوچستان میں فوج کشی شروع کردی گئی (جو اب تک جاری ہے) اور جنرل ضیاءالحق افغان جہاد کا جھنڈا بلند کرتے ہوئے لمبے عرصے کے لیے جہادی لشکروں کو فروغ دیتے ہوئے حادثے کی نذر ہوگئے۔ پھر جنرل مشرف نے ایک اور وزیراعظم کو ہتھکڑیاں لگائیں اور ملک بدر کردیا۔ وہ بھی امریکہ کے دہشتگردی کے خلاف جہاد میں شامل ہوگئے۔ جو جہادی پیدا کیے گئے تھے وہ اُلٹا اسلام آباد پر پلٹ پڑے۔ پاکستان کے 80 ہزار شہری اور ہزاروں سپاہی اور افسر شہید
کردئیے گئے۔ اب طالبان پھر سے افغانستان پہ قابض ہیں اور تحریک طالبان پاکستان نے جنگ بندی ختم کر کے افغان سرزمین سے پاکستان کے خلاف اک نئے جہاد کا اعلان کردیا ہے اور ہمیں جانے افغانستان کے بحران کی کیا کیا قیمت ادا کرنی پڑے گی۔
یہ 16 دسمبر ہی تھا لیکن 2014ءمیں جب ہمارے 132بچوں کو خونخوار بھیڑیوں نے آرمی پبلک سکول پشاور میں گولیوں سے بھون ڈالا۔ پھر ایک کمشن بنا اور اس کی رپورٹ کے مطابق ذمہ داروں کے خلاف کارروائی نہ ہوئی۔ اُلٹا ان کے قاتلوں کے لیے عام معافی اور صلح کی بات چیت کو عمران حکومت شدو مد سے آگے بڑھانا چاہ رہی ہے۔ اور شہید نونہالوں کے خاندان یادوں کے دیئے جلاتے اور آنسو بہائے جاتے ہیں اور ان کی داد رسی کرنے والا سوائے عوام کے کوئی نہیں۔ آخر خون آشام پالیسیوں اور سانحوں کا دور کب ختم ہوگا اور انسانیت کے خلاف جرائم کرنے والوں اور شہریوں کو غائب کرنے والوں کو کب کٹھہرے میں کھڑا کیا جائے گا؟ یا پھر یہ المیے ہمارا مقدر رہیں گے؟