کراچی ( ویب نیوز )سندھ ہائی کورٹ نے اسلام قبول کر کے پسند کی شادی کرنے والی آرزو فاطمہ کی شیلٹر ہوم سے والدین کے ساتھ جانے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا، سماعت کے دوران آرزو کے والدین نے بیان دیا ہے کہ بچی مسلم رہے یا عیسائی ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔سماعت کے دوران عدالتی حکم پر شیلٹر ہوم انتظامیہ نے آرزو فاطمہ کو سندھ ہائی کورٹ میں پیش کر دیا۔اس موقع پر نظار تنولی ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ آرزو فاطمہ نے مرضی سے
اسلام قبول کیا، شیلٹر ہوم کی انتظامیہ نے اسے شوہر سے ایک سال ملنے نہیں دیا، اس پر تشدد ہوا، شیلٹر ہوم کی انتظامیہ نے آرزو کے والدین کے ساتھ واپس جانے کی درخواست عدالت میں دائر کرائی۔جسٹس کے کے آغا نے کہا کہ عدالت نے بچی کو کم عمری کے باعث شیلٹر ہوم بھیجنے کا حکم دیا تھا، ہم نے بچی کی اچھی تعلیم و تربیت کا بھی حکم دیا تھا، اب لڑکی خود اپنے والدین کے ساتھ جانا چاہتی ہے۔جسٹس کے کے آغا نے کہا کہ سندھ میں کم عمری میں شادی جرم ہے اور عدالت بھی فیصلہ دے چکی ہے۔آرزو کے والدین کے وکیل جبران ناصر نے عدالت کو بتایا کہ علی اظہر کے وکیل نظار تنولی سماعت سے پہلے آرزو کو ڈراتے رہے ہیں۔عدالت نے یہ سن کر علی اظہر کے وکیل نظار تنولی پر اظہارِ برہمی کیا۔عدالت نے آرزو فاطمہ کی والدین کے پاس واپس جانے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا، درخواست پر آج ہی فیصلہ سنایا جائے گا۔عدالت نے اپنے حکم میں کہا کہ جب تک درخواست پر فیصلہ نہیں ہو جاتا آرزو فاطمہ کو کسی سے بات نہ کرنے دی جائے۔عدالت نے آرزو فاطمہ کو فی الوقت دوبارہ شیلٹر ہوم بھیجنے کا حکم بھی دیا۔