77

امریکی جمہوریت کو بڑے پیمانے پر خطرات لاحق ہو چکے: امریکی صدر جو بائیڈن

Spread the love

کراچی (نیوز ڈیسک) امریکا میں صدر جو بائیڈن ایک سال تک پر امید رہے کہ ملک کے حالات معمول پر آ جائیں گے اور جمہوریت کو ہونے والا نقصان دوبارہ بحالی کی طرف گامزن ہو جائے گا لیکن 6؍ جنوری کو کیپیٹل ہل پر ہونے والے حملے کی برسی کے موقع پر انہوں نے اعتراف کیا کہ امریکی جمہوریت کو بڑے پیمانے پر خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔ اپنے خطاب میں انہوں نے کہا تھا کہ ’’ہمیں آج فیصلہ کرنا پڑے گا کہ ہم کس طرح کی قوم بننا چاہتے ہیں، کیا ہم ایسی قوم بننا چاہیں گے جو سیاسی تشدد کو ایک روایت بنانا چاہے گی؟‘‘ یہی سوال اب ہر امریکی شہری کے ذہن میں گونج رہا ہوگا۔ امریکی اخبار

کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکا اب زیادہ منقسم معاشرہ بن چکا ہے جسے جنوری 2020ء کو کیپیٹل ہل پر حملے نے مزید منقسم بنا دیا۔ خدشہ ہے کہ یہ واقعہ ملک میں وسیع پیمانے پر بے چینی، تنازع اور داخلی سطح پر دہشت گردی کو جنم دے گا۔ اخبارات میں ان شہ سرخیوں کے ساتھ آرٹیکلز شائع ہو رہے ہیں کہ ’’کیا خانہ جنگی ہونے والی ہے؟‘‘ جبکہ نیویارکر اور نیویارک ٹائمز جیسے اخبارات کے اداریوں میں بھی ایسے ہی خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ تین ریٹائرڈ فوجی جرنیل بھی خبردار کر چکے ہیں کہ اگر مستقبل میں کبھی دوبارہ حکومت پر قبضے کی کوشش ہوئی تو ملک میں خانہ جنگی پھیل سکتی ہے۔ صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ ہفتے کیپیٹل ہل پر حملے کی برسی میں ری پبلکن پارٹی کے کسی رکن نے شرکت نہیں کی جبکہ معروف ٹی وی چینل فاکس نیوز کے سخت نظریات کے حامل لیکن مقبول ٹی وی میزبان ٹکر کارلسن کے پروگرام میں جو بائیڈن کی تقریر دکھانے سے انکار کر دیا گیا اور اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ ’’اُس دن زیادہ کچھ نہیں ہوا تھا۔‘‘ خطرے کی گھنٹی بج رہی ہے، ری پبلکن پارٹی پر سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے رویوں کی چھاپ مضبوط ہوتی جا رہی ہے اور یہ آہستہ آہستہ مطلق العنان رویہ اختیار کر رہی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ خطرات اس قدر بڑھ چکے ہیں کہ ملک میں شمالی آئرلینڈ طرز کی مزاحمت شروع ہو سکتی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں