انگیخت: امتیاز عالم
لیجئے بڑا دعویٰ کیا گیا ہے کہ 74برس میں پہلی قومی سلامتی کی پالیسی (NSP) مرتب کرلی گئی ہے اور وہ بھی پارلیمنٹ سے بالا بالا۔ تو سوال اُٹھتا ہے کہ 74 برس تک قومی سلامتی کا جو نظریہ ریاستی سلامتی دے سکا نہ انسانی سلامتی ،وہ گویا موجود ہی نہ تھا؟ بھلا قومی سلامتی کے مارشل تصور کے تنقیدی جائزے سے نتائج اخذ کیے بنا کوئی نیا قومی سلامتی کا تصور کیسے اُبھر کر سامنے آسکتا ہے؟ اس پر مٹی ڈالنے کی معصومانہ چالاکی کو نظر انداز کیے بنا
سوال کیا جاسکتا ہے کہ بھلا ”پہلی“ قومی سلامتی کی پالیسی میں ایسا نیا کیا ہے، جس پر اتنی داد وصول کی جارہی ہے؟ البتہ یہ اقرار قابل اعتنا ہے کہ معاشی سلامتی کے بنا ”روایتی سلامتی“ یعنی دفاع ممکن نہیں کیونکہ روایتی سلامتی کے بوجھ تلے مفلوک الحال معیشت دم توڑ بیٹھی ہے۔ جس کے باعث روایتی فوجی سلامتی بھی خطرے سے دوچار ہوچلی ہے۔ مطبوعہ قومی سلامتی کی دستاویز فقط ایک مجرد تجزیاتی فریم ورک فراہم کرتی ہے گو کہ یہ روایتی سلامتی سے انسانی سلامتی کی جانب کایا پلٹ کی صفتی تھیوریٹیکل بنیاد کو مصلحتاً چھونے سے گریزاں ہے۔ آخر اس پیراڈائم شفٹ کے حقیقی معنی کیا ہوسکتے ہیں؟ سادہ اور صاف لفظوں میں: انسانی سلامتی، ریاستوں کی سلامتی کے برعکس، لوگوں اور انسانی برادریوں کی سلامتی اور ان کے بنیادی حقوق کا تقاضہ کرتی ہے لیکن اسی صفتی تبدیلی کا اگر ذکر ہے تو سرسری اور وہ بھی آخری باب (8) میں۔ سلامتی کی دستاویز کے پانچ باب فقط روایتی سلامتی اور ایک خارجہ پالیسی سے متعلق ہیں اور ایک باب (4) معاشی سلامتی پہ ہے۔ سارے کا سارا زور دفاع پر ہے جس کے لیے معیشت کی ترقی و توانائی ضروری پیشگی شرط کے طور پر تسلیم کرلی گئی ہے۔ اگر دست نگر، قرضہ خور گماشتہ معیشت کا تضاد و تقاضہ بنیادی ہے تو پھر سلامتی کی تمام جہتوں کو معاشی تقاضوں کے تابع کرنا ہوگا اور خطے میں نت نئے تصادموں اور پرانے جھگڑوں کو ہوا دینے کی بجائے امن، بقائے باہم، اختلافات (Core Issues)کے پرامن حل، باہمی تجارت اور علاقائی معیشتوں کے پھیلاﺅ کی راہ پہ چلنا ہوگا۔ جب جیو اکنامکس بنیادی ٹھہرائی گئی ہے تو اسے جیو اسٹریٹجک
تقاضوں کے کھونٹوں سے نہیں باندھا جاسکتا۔ اس کا مطلب یہ قطعی نہیں کہ پاکستان کی جغرافیائی سلامتی اور آزادی کے تحفظ سے کسی طور پر آنکھیں بند کرلی جائیں۔ پاکستان بھی تبھی ہے، جب اس کے عوام کی انسانی سلامتی و آزادی اور تانباک مستقبل محفوظ ہو۔
قرائن و حقائق سے ظاہر ہے کہ قومی سلامتی کی ”نئی پالیسی“ کی ضرورت اس لیے پیش آئی ہے کہ ایک نحیف، دست نگر اور کم پیداواری معیشت قرضوں کے بڑھتے ہوئے ناقابل برداشت بوجھ اور نہ ختم ہونے والے اور آئے دن بڑھتے ہوئے دفاعی و سلامتی کے تقاضوں کا بھاری بھرکم بوجھ اپنے ناتواں کندھوں پہ نہیں اُٹھاسکتی۔ اس کے باوجود قومی سلامتی کی پالیسی کا تقاضہ ہے کہ کسی بھی طرح سے معیشت کا ہجم بڑھایا جائے کہ سلامتی کے جہنم کا پیٹ بھرا جاسکے۔ گزشتہ کئی برسوں سے سرعت سے بڑھتے ہوئے ریاستی اخراجات اور آمدنی میں معمولی اضافوں کے باعث خلیج اتنی بڑھ گئی ہے کہ اب قرضوں کی ادائیگی کے لیے وفاق کے ریونیو خرچ کر لینے کے بعد دفاعی اور ریاستی نظام کو چلانے کے لیے خسارے کے سوا کچھ نہیں اور ہر دو خساروں کو پورا کرنے کے لیے ہر سال 25/30 ارب ڈالرز درکار ہیں۔ ایسی بھیک منگ ریاست کی سلامتی بچتی ہے، نہ قومی خود مختاری۔ پاکستان کی دست نگر اور کرایہ خور معیشت کے کئی بنیادی مسائل ہیں جن سب کا پائیدار حل ضروری ہے۔ لیکن جو بہت بنیادی تضاد اسے درپیش ہے، وہ ہے ایک جدید نوآبادیاتی طفیلی اور خرچیلی ریاست کا بالائی ڈھانچہ اور ایک پچھڑے ہوئے سرمائے کے ارتکاز کی ایسی نحیف بنیاد جو مفت خور، کرایہ خور، ٹیکس چور اور سرکاری اہلکاروں
کی لوٹ کھسوٹ کے ہاتھوں اتنی بے حال ہے کہ ایک بڑی قومی سلامتی کی ہیبتناک ریاست کا بوجھ اٹھانے سے قاصر ہے۔ اب اگر اس پر مزید بوجھ ڈالیں گے تو یہ دیوالیہ ہوجائیگی نہیں ہوچکی ہے۔ پہلے کوشش کی گئی کہ اٹھارویں ترمیم ختم ہو اور نیشنل فائنانس کمشن میں قابل تقسیم محاصلات میں سے قرضوں کی ادائیگی اور روایتی سلامتی کا حصہ کاٹا جائے۔ اب معاشی کیک کو بڑھانے پہ زور ہے، جو مناسب ہے۔ لیکن کیک بڑھے تو کیسے؟
معاشی سلامتی جو اشد ضروری ہے اور علاقائی تصادموں کی بجائے علاقائی تعاون اور معاشی حصہ داری بھی قابل تحسین ہے۔ لیکن معاشی سلامتی جو شراکت دار (Inclusive) ہے نہ پائیدار (Sustainable) کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ انسانی سلامتی اس سے یقینی ہوجائے گی۔ پاکستان کی سیاسی معیشت اور حکمران طبقات کا ایسا خوفناک شکنجہ ہے کہ محنت کش طبقات اور تمام پیشہ ور سماجی پرتوں کے لیے زندگی کی تمام تر نعمتیں معدوم ہوکر رہ گئی ہیں، اور کروڑوں خواندہ و نیم خواندہ نوجوان دھکے کھاتے پھر رہے ہیں۔ انسانی سلامتی کے پیمانوں اور اشاریوں سے متعلق سب سے پہلے ڈاکٹر محبوب الحق نے اقوام متحدہ کو آگاہ کیا تھا۔ پھر انسانی سلامتی کا نظریہ ریاستی سلامتی کے رد کے طور پر سامنے آیا اور انسانی سلامتی کے لیے ایک کلی اپروچ (Wholist Approach) سامنے آئی۔ محفوظ رہنے، خوف سے آزاد رہنے، ضرورتوں سے فیض یاب ہونے اور انسانی وقار کو یقینی بنانے کے لیے اقوام متحدہ نے اس
کے 17 مقاصد بیان کیے ہیں: 1) ناداری کا خاتمہ، 2) بھوک کا مٹنا، 3) توانا صحت اور فلاح و بہبود، 4) اعلیٰ تعلیم، 5) صنفی مساوات، 6) صاف پانی اور صفائی، 7) سستی اور صاف توانائی، 8) مناسب کام و معاشی نمو، 9) صنعت، تخلیق اور بنیادی ڈھانچہ، 10) عدم مساوات کا خاتمہ، 11) پائیدار شہر اور انسانی برادری، 12) محتاط کھپت اور پیداوار، 13) ماحولیاتی تحفظ، 14) زیر زمین پانی زندگی کا بچاﺅ، 15) زمین پر زندگی کی پائیداری، 16) امن، انصاف اور موثر ادارے، 17) مقاصد کے حصول میں عوامی شرکت۔
لیکن پاکستان پائیدار اور شراکتی ترقی کے 2030ءتک ملینیم مقاصد کو پورا کرنے میں بری طرح سے ناکام رہا ہے۔ جس بات کا سارے فسانے میں ذکر نہیں اور وہ بھی سلامتی کے مفاد میں وہ یہ ہے کہ ذرائع اور آمدنیاں کہاں سے اور کیسے بڑھائی جائیں گی اور قومی دولت کی تقسیم کون کون سے کھاتوں اور شعبوں پہ خرچ کی جائے گی۔ سول ملٹری تعلقات کی آئین سے ماورا معکوس صورت کے پس منظر میں نئی سلامتی کی پالیسی پر عملدرآمد کے لیے ایک ”مجموعی حکومت“ (Whole Government) کی ایجنسی متعارف کروائی گئی ہے جو غالباً منتخب حکومت سے بالا اور وسیع تر ہے۔ جس بات پر قومی سلامتی کے ہونہار مشیر نے اپنی قلم توڑی ہے وہ دستاویز کے الفاظ میں واشگاف ہے: ”معاشی سلامتی، ہمہ گیر قومی سلامتی کا مرکزہ ہے۔ معاشی وژن پہ زور اس لیے ہے کہ جیو سٹریٹیجی (روایتی سلامتی) پر توجہ کو بڑھایا جاسکے۔“ کسی نے خوب کہا ہے کہ: دنیا کبھی بھی امن سے نہیں رہ سکتی، جب تک لوگوں کو اُن کی روزمرہ زندگی میں سلامتی میسر نہیں آئے گی۔