لاہور (طیبہ بخاری سے)معروف تجزیہ کار امتیاز عالم نے کہا ہے کہ قومی سلامتی پالیسی کو نیا کیوں کہا جا رہا ہے،کیا اس سے قبل ایسی کوئی پالیسی نہیں تھی اور اگر تھی تو اُس سے ہم نے کیا نتائج اخذ کئے؟دنیا کے حالات بدلنے کی صورت میں بتایا جاتا کہ آخر نئی پالیسی کی ضرورت کیوں پیش آئی؟پاکستان کی واضح قومی سلامتی کی پالیسی رہی ہے کیونکہ پاکستان ایک نیشنل سیکیورٹی سٹیٹ تھا، ہے اورشاید کافی عرصے تک ابھی رہیگا لیکن اب معاشی بنیاد مزید بڑا بوجھ اٹھانے سے انکار کر چکی ہے۔ وہ یوٹیوب چینل ”بدلو“کے پروگرام ”انگیخت“ میں گفتگو کر رہے تھے۔ امتیاز عالم نے کہا کہ معاشی سلامتی کی طرف اس لئے رجوع کیا جا رہا ہے کہ ”کیک“ میں اضافہ کیا جائے ”کیک“ یعنی ذرائع آمدنی میں اضافے کیساتھ ساتھ اخراجات میں کمی بھی لازمی طور پر لانا ہو گی اب دیکھنا یہ ہے کہ کون کونسے اخراجات کم ہونگے قومی سلامتی پالیسی میں ”انسانی سلامتی“ کا ذکر آخر میں تکلفاً کیا گیا۔ ہم اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کیلئے مقرر کردہ 17اہداف مکمل کرنے میں ابھی تک ناکام رہے ہیں 2030ء قریب آ رہا ہے اور پاکستان کے انسانی سلامتی کے اشارئیے بہت بُرے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں امتیاز عالم کا کہنا تھا کہ ماضی کا جائزہ لیں تو پاکستان شروع سے ہی امریکہ کے کیمپ میں رہا ہے لیاقت علیخان کے دور میں جب سرد جنگ جاری تھی، ایوب خان وزیر دفاع تھے تو ہم سیٹو سینٹو میں شامل ہو گئے پاک امریکہ معاہدوں کے بعد ہم خطے میں امریکی اتحادی کہلائے سرد جنگ دور میں ہماری پالیسی طویل عرصے تک سوویت یونین اورکمیونزازم مخالف رہی40سال تک ہم افغانستان میں امریکہ کی جنگ لڑتے رہے پہلے مجاہدین کو لایا گیا پھر ہم امریکہ کی دہشتگردی کیخلاف جنگ میں شامل ہو گئے ہم نے دہشتگردی کیخلاف جنگ کو اپنی سٹریٹجی کا حصہ بنایا، پھر افغان طالبان ہماری سٹریٹجی کا حصہ بن گئے اب کیا ہم اپنی پرانی پالیسی کا ریورسل چاہتے ہیں؟پرانی پالیسی میں زیادہ زور جیو سٹریٹجی پر تھا جس میں سلامتی کے تقاضے اول باقی سب بعد میں تھے اب کہا جا رہا ہے کہ ہم جیو سٹریٹجی سے ہٹ رہے ہیں اور ”جیو اکنامکس“کی طرف آ رہے ہیں جیو اکنامکس کی
طرف آنا تھا تو نئی پالیسی معاشی ماہرین بناتے۔
ایک سوال کے جواب میں امتیاز عالم کا کہنا تھا کہ معیشت بہت نحیف، زراعت پسماندہ، عوام کم تعلیم یافتہ اور غیر ہُنر مند ہیں کروڑوں نوجوان ڈگریاں ہاتھ میں لئے سڑکوں پر بیروزگار پھررہے ہیں جیسی ہماری پالیسیاں ہیں ان سے ”معاشی کیک“ بڑا نہیں ہو سکتا اکنامک سیکیورٹی کا مطلب یہ بھی نہیں کہ ہیومن سیکیورٹی ہوانسانی سلامتی تب ہو گی جب انسانی سلامتی پر خرچ کیا جائیگا،انسانی سلامتی ترجیحات میں کہیں بھی نہیں ہے شائد”خفیہ صفحات“ میں ہو جنہیں چھپا کر رکھا گیا ہے۔انسانی سلامتی کیلئے صحت، کوالٹی ایجوکیشن، ماحولیات،معیارِ زندگی کو بہتر بنانے پر خرچ کرنا ہو گاسوشل سیکٹر کیلئے بجٹ بڑھانا اور غیر پیداواری بجٹ جس میں دفاع، سول ایڈمنسٹریشن سمیت متعدد اخراجات کم کرنے ہونگے ابھی تک ایسی کوئی پلاننگ دیکھنے میں آئی کارڈز سکیموں سے غربت ختم نہیں ہو گی انسانی سلامتی کیلئے باقاعدہ منصوبہ بنانا پڑے گا۔
ایک سوال کے جواب مین امتیاز عالم کا کہنا تھا کہ جیو اکنامکس کی طرف جانے کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ آپ علاقائی تجارت کریں گے بھارت سے تنازعات کے حوالے سے نظریہ بھی بدلنا پڑے گا تنازعات کے باوجود چین اور بھارت کی تجارت 130ارب تک جا پہنچی ہے چینی ماڈل یہ ہے کہ سرحدی
اختلاف رکھیں لیکن اسے تجارت اور دیگر معاملات سے نہ جوڑیں۔بنگلہ دیش کی مثال لے لیں وہاں معاشی ترقی ہو رہی ہے، سیکیورٹی ہے اور انسانی ترقی بھی ہو رہی ہے وجہ یہ ہے کہ بنگلہ دیش کا دفاعی بجٹ بہت معمولی ہے جبکہ ہم برطانیہ سے زیادہ اپنے جی ڈی پی کا حصہ دفاع پر خرچ کر رہے ہیں سارک کا پلیٹ فارم بالکل بند پڑاہے جو کہ انتہائی افسوسناک ہے اب پاکستان اور بھارت کی تجارت براستہ دبئی ہو رہی ہے جس سے ٹیکس وغیرہ کچھ نہیں ملتا پاکستان جنوبی، مغربی اور وسطی ایشیاء کے انتہائی اہم کراسنگ پوائنٹ پر ہے، ہمیں تجارت کے راستے کھولنے ہونگے لیکن اب امریکہ کی یادیں ستا رہی ہیں امریکہ نے ایشیاء پیسفک ریجن میں بھارت کیساتھ پارٹنر شپ بنا لی ہے اب انہیں مزید کوئی اور دوست نہیں چاہئے جبکہ ہم افغان وار کے حوالے سے ایوب خان والی ”جپھی“چاہ رہے تھے جو کہ نہیں ملی ہماری اسٹیبلشمنٹ میں ابھی بھی ”امریکی حامی“ بیٹھے ہیں۔ان معاملات کا نتیجہ یہ ہے کہ چین سے ہمارے تعلقات سست روی کا شکار ہیں نئے منصوبے شروع نہیں ہو رہے امریکہ اور چین کی کشمکش میں اضافہ جبکہ چین اور روس میں سلامتی کا نیا معاہدہ ہونے جا رہا ہے پیوٹن چین میں صرف اولمپکس میں شرکت کیلئے نہیں جائیں گے۔’نئی الائنمنٹ“بننے جا رہی ہے، ہم کہتے ہیں ہمارا اِس سے کوئی تعلق نہیں حالانکہ ہم فائدہ اٹھا سکتے ہیں ہماری اسٹیلبشمنٹ کا ”دِل“ چین میں نہیں امریکہ میں ہے متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کا جھکاؤ بھارت کی طرف ہوتا جا رہا ہے جبکہ ہم پر افغانستان کا ملبہ گرنا شروع ہو گیا ہے نیو کلیئر پاور ہونے کے باوجود ہم روایتی ہتھیاروں کی دوڑ میں بھی شریک ہو چکے ہیں مہنگائی میں ہم دنیا بھر میں تیسرے نمبر پر آچکے ہیں لیکن حکومت ماننے کو تیار نہیں ہمیں کور ایشوز پر سوچنا ہو گا، ڈپلومیسی کو موقع دینا ہو گا۔