انگیخت: امتیاز عالم
تاریخ آگے بڑھتی جاتی ہے اور اس کے نت نئے تقاضے ایجنڈے پہ آتے چلے جاتے ہیں، لیکن مملکت خداداد کا فکری چلن نرالا ہے کہ ماضی کے بری طرح پٹے پٹائے نسخے بار بار جھاڑ جھونک کر پیش کیے جاتے ہیں اور اسلاف کے سنہری زمانے کے خواب سیاست کے دنیاوی بازار میں ایسے بیچے جاتے ہیں جیسے واقعی روحانی قلب ماھئیت درکار ہو ۔ آج کل پھر سے مغلوب پارلیمانی سیاست کی مٹی پلید کی جارہی ہے اور صدارتی نظام کی خوبیوں کے گیت گائے جارہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان بیک وقت ایوب خان کے ”ترقی کے ماڈل“ کی خوبیاں بیان کرتے کرتے تان توڑتے ہیں تو ریاست مدینہ پر اور یہ بھول کر
کہ یہ دونوں سیاسی و نظریاتی اصطلاحیں اپنے تاریخی پس منظر اور معنی میں انتہائی مختلف اور ناقابل موزانہ ہیں۔ نوآبادیاتی دور کے وائسرائی نظام کے پروردہ سول و ملٹری نوکر شاہی ڈھانچے اپنے اختیارات و مفادات کے لیے صدارتی یا پھر چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے شب خون کے متلاشی رہتے ہیں جس کا آغاز گورنر جنرل کے عہدہ کی صورت میں ہوا تھا۔ پاکستان بننے پر 1935ءکے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ جس میں گورنر جنرل کلیدی اہمیت کا حامل تھا کے علاوہ کوئی انتظام نہ تھا، لہٰذا قائداعظم محمد علی جناح گورنر جنرل ٹھہرے جو کہ ایک عبوری انتظام تھا، لیکن گھات میں بیٹھے نوکر شاہی کے سرغنہ اس انتظار میں تھے کہ کسی طرح گورنر جنرل کے منصب کو ہتھیا کر جمہوری نظام کو چلتا کیا جائے۔ خواجہ ناظم الدین کی جگہ ملک غلام محمد گورنر جنرل بنے پھر سکندر مرزا اور اُن سے فیلڈ مارشل ایوب خان نے اقتدار سنبھال کر پاکستان میں مارشل رول کی بنیاد ڈال دی۔ بعد ازاں تین فوجی حکومتوں میں چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹرز نے صدارتی نظام کے مختلف چربوں کو اپنی اپنی سیاسی ضروریات کے مطابق استعمال کیا جن میں مثبت نتائج والی گماشتہ مقننہ کو بطور صدارتی ربڑ اسٹیمپ کے استعمال کیا گیا۔ صدر ایوب خان کا بنیادی جمہوریتوں کا نظام تھا، یا پھر جنرل ضیا الحق کا ریفرنڈم اور غیر سیاسی مقننہ اور جنرل مشرف کا مصنوعی سیاسی بندوبست سب کے سب عوامی نمائندگی کی قبر کھود کر مسلط کیے گئے۔ ہر صدارتی فوجی ڈکٹیٹر کے زوال پہ ان کا گھڑا ہوا سیاسی اور نظریہ ضرورت کا ڈھانچہ بھی ہمیشہ زمین بوس ہوتا رہا اور یوں پاکستان جمہوریت کے راستے پہ گامزن نہ ہوسکا، اس کے نتیجے میں جو نقاہت جمہوری ادوار کو میسر آئی وہی ان کے زوال کا باعث بنی اور پھر سے صدارتی نظام کا ریکارڈ بجایا جاتا رہا۔ آج کل بھی ٹیلی ویژن سکرینوں پر سند یافتہ نیم خواندہ عسکری ماہرین ہمیں صدارتی نظام کی افادیت پہ لیکچر دیتے اور پارلیمانی نظام کو کوستے نظر آتے ہیں جسے منصوبہ بند طور پر اپاہج بنا کے رکھا گیا ہے۔
اب آتے ہیں پہلے عمران خان کی جنرل ایوب خان کے ”عشرہ ترقی“ کی صبح شام تعریفوں اور اسی سانس میں ریاست مدینہ کی جانب رجوع کرنے کی روحانی خواہشوں کی طرف۔ شاید خان صاحب کو معلوم نہیں کہ ایوب خان کی ”ترقی کا ماڈل“ ہارورڈ کے معاشی مکتب کے ماہرین گستاف ایف پاپا نیک وغیرہ نے ترتیب دیا تھا جس کا رہنما اصول تھا ”لالچ کا سماجی افادہ“ (Social Utility of Greed)۔ اس لالچ کے نظریہ کی رو سے ”عملیاتی نابرابری“ کی حکمت عملی کو اپنایا گیا جس کے نتیجے میں تمام دولت کو چند خاندانوں میں مرکوز کر کے مخصوص علاقوں کی ترقی پہ زور دیا گیا کہ شاید اس سے ترقی کے کچھ چھینٹے مظلوم طبقوں اور محروم علاقوں کو بھی مل پائیں گے۔ ایسا نہ ہوا۔ تمام دولت چند اجارہ دار ، سرمایہ دار خاندانوں میں مرکوز کردی گئی اور مشرقی پاکستان سمیت مغربی پاکستان کے چھوٹے صوبے محرومیوں کے اندھیروں میں ڈوبتے چلے گئے۔ بیرونی طور پر اس ماڈل کا انحصار بیرونی ”امداد“ اور عالمی سامراجی سرپرستی پر تھا جو پاکستان کے مغربی فوجی معاہدوں، سیٹو، سینٹو اوربغداد پیکٹ کے ذریعہ میسر آگئی۔ یوں پاکستان ”اتحادیوں میں بڑے اتحادی“ کے طور پر سامنے آیا اور اس دست نگری اور مغربی کاسہ لیسی کے رشتے کے باعث ایوب خان امریکہ اور مغرب کی آنکھ کا تارا بنے۔جس
کی خان صاحب ہمیں بار بار یاد دلاتے ہوئے شرم محسوس نہیں کرتے۔ ”ترقی کا یہ ماڈل“ بھی سراب ثابت ہوا ۔ 60-65 کے دور میں یہ اوپر اُٹھا اور 65-70 کے زمانے میں زمین بوس ہوگیا۔ جو طبقاتی و علاقائی تفریق پیدا کی گئی اس کے نتیجہ میں 1968 کا عوامی اُبھار پیدا ہوا اور مشرقی پاکستان نے آزادی حاصل کر کے ترقی کی راہ میں پاکستان کو پیچھے چھوڑ دیا۔ ایوب خان کے ماڈل نے جو بیرونی سرمایہ کی دست نگری پیدا کردی تھی وہ اب قرض کے شکنجے کی صورت اختیار کرچکی ہے اور پاکستان بغیر بیرونی قرضے کے اپنے دفاع سے لے کر تمام تر اخراجات کے لیے قرض لینے پر مجبور ہے۔ جو خیر سے کپتان کی حکومت کے اختتام تک تقریباً دو گنا ہونے جارہا ہے۔ صدارتی اور مارشلائی نظاموں کی لائی بربادی کے باوجود اور ملک کے دولخت ہونے کے باوجود بھی پرانے ثنا خواں صدارتی نظام کے قصیدے پڑھنے سے باز نہیں آرہے اور اس کے باوجود کہ صدارتی نظام کا مطلب اکثریتی صوبے پنجاب کی باقی تین صوبوں پہ مطلق حکمرانی ہے۔ا صل مدعا یہ ہے کہ مقتدرہ مثبت نتائج سے اپنا صدر منتخب کرائے اور عوامی نمائندگی کے نظام کو غیر موثر کر کے کونے سے لگادے۔ کیا یہ حضرات بھول گئے ہیں کہ 1968 کی عوامی تحریک کے نتیجے میں نہ صرف بالغ حق رائے دہی کو تسلیم کیا گیا تھا بلکہ پارلیمانی نظام کو بھی قبول کرلیا گیا تھا۔ اور اسی کے تسلسل میں 1973 کے آئین کو پارلیمانی، وفاقی اور جمہوری خطوط پر اتفاق رائے سے نافذ کیا گیا تھا جسے بار بار کی کوششوں کے باوجود ردی کی ٹوکری میں نہیں پھینکا جاسکا۔
حیران کن پہلو یہ ہے کہ ایوب خان کے دور کے گیت گاتے گاتے عمران خان ”ریاست مدینہ“ کی جانب مراجعت کرنے کی رٹ لگانے میں زور شور سے مصروف ہیں۔ کوئی انہیں کیوں نہیں بتاتا کہ میثاق مدینہ مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں میں بقائے باہم کامعاہدہ تھا جو قابل تکریم ہے اور جسے ہم پاکستان میں اقلیتوں کے حوالے سے اپنانے کو تیار نہیں ہیں۔ یہ کوئی ریاست نہ تھی۔ رہی مسلم نشاة ثانیہ کی باتیں تو اُموی، عباسی اور عثمانی ملوکیتوں کو کون ہے جو خلافت کا درجہ دینے کی علمی جسارت کر سکے۔ ویسے بھی جدید قومی ریاست تو وجود ہی میں 1648 کے ویسٹ فیلیا کے امن معاہدے کے بعد میں وجود میں آئی۔ اور صنعتی زمانے میں یہ جمہوری صورت میں متشکل ہوئی۔ ریاست اور مذہب جدا ہوئے۔ عوام اقتدار اعلیٰ کے مالک بنے اور اختیارات کی تقسیم کا ایک واضع نظام مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ کی صورت میں موجود میں آیا جس میں انتظامیہ عوام کو جوابدہ ٹھہری۔ مسلمان کی کوئی بھی سلطنت قومی تھی نہ جمہوری بلکہ ملوکیت تھی، جو ظاہر ہے آج کے جدید جمہوری زمانے سے کوئی سروکار نہیں رکھتی۔ یہ الگ بات ہے کہ جب بھی مطلق العنان حکمران یا جب عوامی رہنما عوامی حمایت کھو بیٹھتے ہیں تو وہ مذہب کے مقدس نام کو استعمال کرنے سے باز نہیں رہتے۔ عمران خان بھی دو کشتیوں میں پاﺅں رکھ کر جمہوریت کی نیا ڈبونے پہ تُلے ہیں۔انہیں کوئی سمجھائے تو کیسے؟