لاہور ( بدلو نیوز ) ملک کو معاشی بدحالی سے نکالنے کیلئے ترجیحات کا از سر نو تعین کرنا ہو گا اور بتدریج مسائل کا حل تلاش کرنا ہوگا کیونکہ عوام کو ریلیف کی اشد ضرورت ہے روز بروز برھتی مہنگائی نے انکی زندگیاں اجیرن کر رکھی ہیں ۔ ان خیالات کا اظہار معروف ماہر معیشت و تجزیہ کار ڈاکٹر فرخ سلیم نے ایک انگریزی جریدے میں اپنے خصوصی مضمون میں کیا ۔ ڈاکٹر فرخ سلیم کے مطابق ہمارا اولین مسئلہ افراط زر ہے گزشتہ 3 برسوں میں گندم، چینی اوربجلی کی قیمتوں میں 100 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس (پی بی ایس) کے مطابق صرف ایک سال میں کوکنگ آئل کی قیمت میں
55 فیصد، دال مسور میں 41 فیصد اور پٹرول 55 فیصد مہنگا ہوا۔اپنے مضمون میں ڈاکٹر فرخ سلیم کا کہنا تھا کہ حکومت کی ترجیح صرف شہباز شریف یا انکی گرفتاری نہیں ہونی چاہئے بلکہ اولین ترجیح یہ ہونی چاہئے کہ آٹے یا دال مسور کی قیمت کیسے گرے گی؟ 75 فیصد سے زیادہ پاکستانی مہنگائی اور 70 فیصد بے روزگاری کو سب سے بڑا مسئلہ سمجھتے ہیں۔ شہباز شریف کو حکومت کی اولین ترجیح کیوں مل رہی ہے؟
ہمارے ملک کا دوسرا اہم ترین مسئلہ تجارتی خسارہ ہے ۔ جولائی سے جنوری کے عرصے میں ہمارا تجارتی فرق 28.8 بلین ڈالر تک چلا گیاجو کہ حوصلہ
افزا نہیں۔ سٹیٹ بینک نے گزشتہ 5 مہینوں میں اپنے ذخائر میں سے 1.5 بلین ڈالر کا نقصان کیا اور روپیہ گزشتہ 41 مہینوں میں اپنی قدر کا 48 فیصد کھو چکا ہے جبکہ حکومت کی دوسری ترجیح یہ ہے کہ نواز شریف کو کیسے واپس لائیں۔ سوال یہ ہے کہ نواز شریف کو واپس لانے سے تجارتی خسارہ کیسے کم ہوگا؟ جب ملکی معیشت بڑے مالیاتی بحران سے دوچار ہے تو نواز شریف کو واپس لانا حکومت کی ترجیح کیوں ہے؟
ڈاکٹر فرخ سلیم نے اپنے مضمون میں تیسرے بڑے مسئلے کی نشاندہی کرتے ہوئے لکھا کہ دہشت گردی ہمارا تیسرا بڑا اور اہم مسئلہ ہے ۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ
فار کانفلیکٹ اینڈ سیکیورٹی سٹڈیز (PICSS) کے مطابق، پاکستان نے گزشتہ 6 برسوں کے دوران حملوں میں مسلسل کمی کے بعد 2021ءکے دوران عسکریت پسندوں کے حملوں میں 56 فیصد اضافہ دیکھا۔ عسکریت پسندوں نے 2021 ءمیں 294 حملے کیے جن میں 395 افراد شہید ہوئے، جن میں 186 عام شہری اور 192 سیکیورٹی فورسز کے اہلکار شامل تھے۔ افغان طالبان نے 15 اگست 2021 ءکو کابل پر قبضہ کر لیا اور اس کے بعد سے پاک فوج پر حملوں میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے۔ اس کے علاوہ، یہ حملے بہت زیادہ پیچیدہ ہو گئے ہیں۔
ڈاکٹر فرخ سلیم کے مطابق بظاہر حکومت کی تیسری ترجیح میڈیا کو کنٹرول کرنا ہے، کوئی حقیقی اصلاحات کوئی حقیقی پالیسیاں نہیں۔ ٹھوس اصلاحات کے لیے ٹھوس پالیسیوں کی ضرورت ہوتی ہے اور ٹھوس پالیسیوں کی شرط ایک ٹھوس ٹیم ہے۔ ہمارے پاس جو کچھ تھا وہ یہ ہے: پنجاب میں ایف بی آر کے 8 چیئرمین، 6فنانس سیکرٹریز، 4 وزرائے خزانہ، 4 بورڈ آف انویسٹمنٹ کے چیئرمین اور 7 انسپکٹر جنرل آف پولیس۔ کوئی ٹیم، کوئی پالیسی نہیں – صرف ٹویٹر مینجمنٹ۔
ڈاکٹر فرخ سلیم نے لکھا کہ تاریخ بتاتی ہے کہ عوام کے حقیقی مسائل کا ادراک نہ رکھنے والے حکمرانوں کے روئیے کچھ ایسے رہے کہ جب روم جل رہا تھا آگ نے صرف 6 دنوں میں روم کا دو تہائی حصہ تباہ کرڈالا تھا جبکہ نیرو چین کی بانسری بجا رہا تھا ۔ 1258ءمیں ہلاکو خان کی قیادت میں منگولوں نے خلافت عباسیہ کے دارالحکومت بغداد کا محاصرہ کیا۔ عباسی جواب دینے میں ناکام رہے کیونکہ وہ اس بحث میں بہت مصروف تھے کہ ”کوا حلال ہے یا حرام؟“ ۔