ایوب ملک
تاریخ گواہ ہے کہ دنیا بھر کے مظلوم طبقات نے عملی جدوجہد سے ہی اپنے حقوق حاصل کیے ہیں۔انسانی سماج میں کوئی ادارہ یا رویہ ابدی و لافانی نہیں ہوتا بلکہ مسلسل جدوجہد کے نتیجے میں اس میں تبدیلیاں رونما ہوتی رہتی ہیں، اسی طرح عورت کا مقام بھی معاشرے میں کبھی ایک جیسا نہیں رہا۔ اسے بہت سارے مراحل سے گز رکر مادرانہ نظام سے پدرسری نظام میں داخل کیا گیا جہاں نہ صرف اسے مرد کے زیر دست بنایا گیا بلکہ اسے معاشرے کا مظلوم ترین طبقہ بھی بنادیا گیا۔
اسے صنفِ نازک کہہ کر کمزور کرنے کی کوشش کی گئی حالانکہ تاریخی طور پر یہ بات بالکل ثابت نہیں ہوتی۔ امریتاپریتم کے یہ الفاظ آج کے پاکستانی سماج کی صحیح عکاسی کرتے ہیں کہ’’مردکا گناہ وقت کے تالاب میں کنکر کی طرح ڈوب جاتا ہے جبکہ عورت کا گناہ کنول کے پھول کی مانند سطح آب پر رہتا ہے‘‘۔
مظلوم طبقات کے حقوق کی بات کی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یکم مئی کو شکاگو میں مزدوروں نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر اپنے اوقات کار کو تسلیم کروایا اور دنیا بھر میں مزدوروں کو ان کے حقوق حاصل ہوئے لیکن آج تک کسی کو ان کے عقائد کے بارے میں کچھ پتا نہیں تھا.
بدقسمتی سے پاکستانی قدامت پرست، عورتوں کو اُن کے حقوق دیے جانے پر عقائد کی تاویلیں پیش کرتے ہیں۔ جب سے خواتین کی طرف سے عورت مارچ کا اعلان کیا گیا ہے، اسی روز سے اخبارات اور ٹی وی شوز پر بیٹھ کر ریاستی دانشورہمہ وقت یہ بات ثابت کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ پاکستان میں یہ چند خواتین ہیں جو پاکستان کے کلچر کو تباہ کرنے پر تلی ہوئی ہیں، ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ ـکو مخصوص ذہن نے بے حیائی اور فحاشی کے معانی پہنا دیے ہیں، حالانکہ یہ نعرہ امریکہ میںتولیدی حقوق کے حصول کی تحریک میں ابھراتھا۔ یاد رہے کہ پاکستان میں مذہبی، قبائلی، سیاسی و سماجی روایات نے جہاں عورتوں کو پسماندہ رکھنے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے، وہاں پر ریاست اور حکمرانوں نے بھی اس مائنڈ سیٹ کو استعمال کرتے ہوئے اس سوچ کو
تقویت دی ہے۔
کیا یہ حقیقت نہیں کہ آج بھی پاکستان میں پسند کی شادی، جائیداد میں جائز حصے کوسماجی اقدار کے منافی تصور کیا جاتا ہے اور عورتوں کے تعلیم حاصل کرنے کے حق کی روایت بھی ہمارے ہاں موجودنہیں۔ پسند کی شادی پر تو قتل اور کاروکاری کی وارداتوں میں کئی گنا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ پنجاب میں 2017سے لے کر جنوری 2022تک چالیس ہزار عورتوں کو اغوا کیا گیایعنی کہ ہر سال آٹھ ہزار عورتیں اور ہر مہینے میں 650عورتوں کو اغوا کیا گیا۔
حالانکہ پنجاب پولیس دعویٰ کر رہی ہے کہ اس نے 37ہزار 140عورتوں کو برآمد کروایا ہے اور اگر اس مفروضے کو تسلیم بھی کر لیا جائے تو پھر بھی پنجاب میں 3,571 خواتین لا پتا ہیں۔ اتنی عورتوں کے اغوا کا پتا بھی نہ چلتا اگر سپریم کورٹ میںسرگودھا کی اٹھارہ سالہ بچی ثوبیہ بتول کا کیس زیر سماعت نہ ہوتا۔پولیس نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ جب وہ ثوبیہ بتول کی بازیابی کی کوشش کر رہی تھی تو اسی دوران اس نے151اغوا شدہ عورتوں کو بازیاب کیا۔
اس تفتیش کے دوران 20 عورتوں کی لاشیں بھی بر آمد ہوئیں۔ پورے ملک میں ہونے والے عورت مارچ میں لگائے جانے والے نعروں کا جائزہ لیا جائے تو ان
میں کوئی ایسی بات نہیں کہی گئی جو پاکستانی آئین سے متصادم ہو، بلکہ ان مظاہروں کی حکومت سے باقاعدہ طورپراجازت لی جاتی ہے اور پلے کارڈز پر بنیادی حقوق کے مطالبات درج ہوتے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت تضادات کامرقع ہے۔
ایک طرف وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری خواتین کی آزادی کا احترام کرتی دکھائی دیتی ہیں تو دوسری طرف انکے وزیر مذہبی امور عمران خان کو ایک خط کے ذریعے عورت مارچ کے انعقاد کو کالعدم قرار دینے کا کہتے ہیں۔ حال ہی میں جمعیت علما ئے اسلام اور تحریک لبیک نے بھی عورت مارچ پر پابندی کا مطالبہ کیا ہے بلکہ یہ عندیہ بھی دیا ہے کہ وہ یہ مارچ نہیں ہونے دیں گے۔
آج اکیسویں صدی میںعورتوں کو بھی تاریخی شعور ورثے میں ملا ہے اور انہوں نے اپنے بارے میں تمام منفی مفروضوں کے خاتمے کا اعلان کر دیا ہے۔ 8مارچ کو پوری دنیا کی عورتوں نے اس تاریخی شعور کا اظہار پوری طاقت اور توانائی سے کرنا ہے۔اسلامی تاریخ بھی یہ بتاتی ہے کہ جیسے ہی سیاست پر فرقہ واریت کا زور کم ہوا تو معاشرے میں علوم و فنون کو ترقی حاصل ہوئی۔
ہمیں بھی پاکستان میں فرقہ واریت، بنیاد پرستی اور جنونیت کے خلاف متحد ہو کر ادب، شاعری، موسیقی، مصوری، مجسمہ سازی، عورتوں اور اقلیتوں کی آزادی کے بارے میں نئے افکار سے مزین ہونا پڑے گاتاکہ سماج کی تخلیقی صلاحیتیں ابھریں کیونکہ یورپ میں جتنی بھی معاشی، سماجی اور سائنسی ترقی نظر آتی ہے وہ ان فرقوں اور سیاسی اداروں کی ازسر نو تشکیل سے رونما ہو پائی ہے۔