90 کی دھائی کے اختتام پر جنوبی پنجاب میں کاٹن جینگ فیکٹریوں میں آگ وبا کی طرح پھیل رہی تھی۔ درجنوں فیکٹریاں جل کر راکھ ہو گئیں ۔ انشورنس کمپنیاں جلتے کوئلوں پر لوٹ رہیں تھیں۔ اچھی طرح یاد ہے میرے تایا کی فیکٹری بھی آتشزدگی کا شکار ہوئی تھی۔ لکین حاصلپور، چشتیاں، وہاڑی اور رحیم یار خان کے شہری جانتے تھے ان فیکٹیریوں جو گانٹھیں راکھ ہوئیں وہ کتنے سالوں کا باقی ماندہ ملبہ تھیں۔ تب بھی یہی کہا جاتا تھا کہ آگ کی وجہ الیکٹرک شارٹ سرکٹ ہے۔ لیکن ہم ایسے واقفان حال جانتے تھے کہ آگ تجارتی خسارے اور نا قابل ادا قرضے لگا رہے تھے۔ سیاسی پشت پناہی کی وجہ سے بہت سوں کو انشورنس کی رقم مل گئی کچھ کو نہیں ملی۔ آج کی آتشزدگی ، اس پر تاجران اور انتظامیہ کا رد عمل دیکھ کر لگتا ہے کہ آگ الیکٹرک شارٹ سرکٹ نے نہیں وبا کی وجہ سے شدید تر ہوتی کاروباری مندی، بڑھتی ہوئی شرح سود اور نا قابل برداشت قرضے نے بھڑکائی ہے۔ اس میں 3 نمبر سے 10 نمبری مال، منافع خوری کی شدید بھوک اور جھوٹی قسمیں بھی شریک جرم ہیں۔ پاکستان میں رواج ہے جس بھی ریکارڈ روم ، گودام یا دفتر سے افشائے جرم کا امکان ہو وہاں الیکٹرک شارٹ سرکٹ آگ لگانے پہنچ جاتا ہے۔ مانتا ہوں میری یہ رائے انتہائی تاریک سوچ کی غماز ہے لیکن یہ رائے 35 سال کے تجربے کی پیداوار ہے ۔ اب کیا کیا جا سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے ایسا نہ ہو ، ہو سکتا ہے مجرم الیکٹرک شارٹ سرکٹ ہی ہو۔ جہاں بیتے سالوں میں جگہ جگہ اتشزدگی میں حسن ظن جل کر راکھ ہوا وہاں سچ بھی سوختہ ہو چکا۔
جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہوگا.
کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے
85