سن فلاور ( Safflower ) خوشحالی کی دستک
پاکستان سالانہ تقریباً دوسو ارب روپے کا خوردنی تیل یا اس کے بیج درآمد کرتا ہے. پیٹرولیم مصنوعات کے بعد ہمارا سب سے کثیر زرمبادلہ اسی پر خرچ ہوتا ہے. پیٹرولیم تو قدرت کی تقسیم ہے، گو کہ اس کی تلاش میں بھی ابھی اس قدر محنت نہیں کی گئی کہ جس قدر ممکن تھی.. مگر حیرانی اور دکھ اس بات پر ہے کہ کشکول لے کر ملک ملک ڈالروں کی بھیک مانگنے والے ہمارے راہنماؤں نے کبھی ایک لحظہ کے لیے بھی نہیں سوچا کہ اس زرعی ملک میں جہاں ہر طرح کے موسم، دنیا کا بہترین نہری نظام، زرخیز ترین زمین اور خون پسینہ ایک کرنے والے جفاکش کسان موجود ہیں دوسو ارب روپے کے خوردنی تیل کی درآمد کی کیا منطق ہے. خوردنی تیل میں اگر ہم جدید رجحانات پر بات کریں تودنیا میں سافلاور safflower کے تیل کا استعمال بطور خوراک بڑی تیزی سے مقبول ہورہا ہے. سا فلاور ایک درمیانے قد کے پودے پر لگنے والا پیلے یا مالٹا رنگ کا پھول ہوتا ہے جو خشک ہونے پر چھ سے دس ملی میٹر لمبے بیج پیدا کرتا ہے. ان بیجوں میں مختلف اقسام کے لحاظ سے تیس سے پچاس فیصد تیل نکلتا ہے. اس کے تیل کی کیمیائی ہئیت بھی اقسام کے لحاظ سے مختلف ہیں. لیکن بحیثیت مجموعی یہ پچانوے فیصد پولی انسیچوریٹ کے ساتھ زیتون کے تیل بعد دوسرا تیل ہے. اس ایک قسم میں اولئیک ایسڈ گلیسرائیڈ یعنی اومیگا ون کی مقدار پچیس فیصد اور لینولییک ایسڈ یعنی اومیگا چھ کی مقدار ساٹھ فیصد سے زائد ہے. ماہرین کے مطابق یہ قسم فوائد کے اعتبار سے زیتون کے تیل سے بھی بہتر ہے. جبکہ دوسری قسم میں اسی فیصد اومیگا چھ اور دس فیصد اومیگا ون پایا جاتا ہے. یہ بھی غذائی اعتبار سے بہترین تیل ہے. یہ بات شواہدات کے ساتھ ثابت کی جاچکی کہ سافلاور کے تیل کا استعمال جسم سے چربی کم کرتا ہے، شریانوں میں جمی چربی کو بتدریج ختم کرتا ہے اور خون کو پتلا کرتا ہے. پیٹ کی چربی کو بھی دور کرتا ہے. کھانے کے علاوہ اس تیل استعمال کاسمیٹکس میں بھی بہت زیادہ ہے. جلدی کی حفاظت اور رنگ گورا کرنے کی قدرتی صلاحیت کی وجہ سے تمام رنگ گورا کرنے والی کریموں میں وائٹ آئل کی جگہ کئی گنا بہتر نتائج کے ساتھ استعمال کیا جاسکتا ہے. یاد رہے کہ وائٹ آئل کی ہماری سالانہ درآمد بھی کروڑوں ڈالرز کی ہے. سافلاور آئل بہت اعلی کوالٹی کے ماحول دوست روغن اور وارنش بنانے میں بھی استعمال ہوتا ہے. اس کے پھولوں اور پتیوں سے کپڑا رنگنے کے اعلی معیار کی کیمیائی مرکبات سے پاک رنگ تیار کیے جاتے ہیں جس سے رنگا ہوا کپڑا عالمی منڈی میں دوسرے رنگوں سے رنگے ہوئے کپڑے کی نسبت مہنگے داموں فروخت کیا جاسکتا ہے. اس کی پتیوں اور پتوں سے بہت سی ادویات بنائی جاتی ہیں. اس قدر خوبیوں کے حامل اس فصل کی کاشت دنیا بھر میں کی جاتی ہے. سال 2019 میں دنیا بھر میں دس لاکھ ٹن سافلاور اگایا گیا. جس میں سے ایک لاکھ ٹن سے زائد پیداوار بھارت میں کی گئی. بدقسمتی سے پاکستان میں 1960 میں اس کی پیداوار کے کامیاب تجربات کرنے کے بعد اسے بھلا دیا گیا. پھر 2001 سے دوبارہ سندھ اور بلوچستان میں اس کی کاشت کی گئی. جو بہت چھوٹے پیمانے پر اب تک جاری ہے. حالانکہ اس کی فصل کو انتہائی کم پانی درکار ہے اور بارانی علاقوں میں بھی بہترین پیداوار دے سکتا ہے.
پاکستان ایگریکلچر ریسرچ کونسل کے مطابق اس وقت نوسو کلو گرام فی ایکڑ پیداوار حاصل کی جاری ہے. جوکہ دیسی سرسوں کی پیداوار کے قریب ہے مگر اس کی قیمت اور خوبیاں اس سے کہیں بہتر ہیں. بطور نقدآور فصل اس کی عدم پذیرائی کی بڑی وجہ کسانوں کی کم علمی اور اس کے بیج کی عدم دستیابی ہے. اگرسرکار کی ترجیحات درست ہوں اور زرعی تحقیق کے ادارے اس طرف توجہ دیں تو اس کی مقامی موسم کے مطابق بہترین اقسام بنائی جاسکتی ہیں.میرا ایسا ماننا ہے کہ حکومتی اداروں کی ذرا توجہ اور کسان تنظیموں کی سرپرستی سے ہم اپنے کسانوں کو سافلاور کی کاشت کی تربیت دے کر چند سال میں ایک سبز معاشی انقلاب لاسکتے ہیں.