144

غربت دی چس

Spread the love

غربت دی چس
ایک گاؤں میں غریب نائی رہا کرتا تھا جو ایک درخت کے نیچے کرسی لگا کے لوگوں کی حجامت کرتا ۔

مشکل سے گزر بسر ہورہی تھی۔ اس کے پاس رہنے کو نہ گھر تھا۔ نہ بیوی تھی نہ بچے تھے۔ صرف ایک چادر اور ایک تکیہ اس کی ملکیت تھی ۔ جب رات ہوتی تو وہ ایک بند سکول کے باہر چادر بچھاتا، تکیہ رکھتا اور سو جاتا.

ایک دن صبح کے وقت گاوں میں سیلاب آ گیا۔

اس کی آنکھ کھلی تو ہر طرف شور و غل تھا۔
وہ اٹھا اور سکول کے ساتھ بنی ٹینکی پر چڑھ گیا. چادر بچھائی، دیوار کے ساتھ تکیہ لگایا اور لیٹ کر لوگوں کو دیکھنے لگا ۔

لوگ اپنا سامان، گھر کی قیمتی اشیا لے کر بھاگ رہے تھے. کوئی نقدی لے کر بھاگ رہا ہے، کوئی زیور کوئی بکریاں تو کوئی کچھ قیمتی اشیا لے کر بھاگ رہا ہے۔

اسی دوران ایک شخص بھاگتا آ رہا تھا اس نے سونے کے زیور پیسے اور کپڑے اٹھا رکھے تھے۔ جب وہ شخص اس نائی کے پاس سے گزرا اوراسے سکون سے لیٹے ہوئے دیکھا توغصے سے بولا !

” اوئے ساڈی ہر چیز اجڑ گئی اے۔
ساڈی جان تے بنی اے، تے تو ایتھے سکون نال لما پیا ہویا ایں”۔۔

یہ سن کرنائی بولا !
لالے اج ای تے غربت دی چس آئی اے”

جب میں نے یہ کہانی سنی تو ہنس پڑا مگر پھر ایک خیال آیا کہ شاید روز محشر کا منظر بھی کچھ ایسا ہی ہوگا۔

جب تمام انسانوں سے حساب لیا جائے گا۔
ایک طرف غریبوں کا حساب ہو رہا ہو گا ۔
دو وقت کی روٹی، کپڑا ۔حقوق اللہ اور حقوق العباد ۔

ایک طرف امیروں کا حساب ہو رہا ہو گا ۔
پلازے، دکانیں، فیکٹریاں، گاڑیاں، بنگلے، سونا اور زیوارات
ملازم ۔ پیسہ ۔ حلال حرام ۔ عیش و آرام ۔ زکوۃ ۔ حقوق اللہ۔ حقوق العباد۔۔۔۔
اتنی چیزوں کا حساب کتاب دیتے ہوئے پسینے سے شرابور اور خوف سے تھر تھر کانپ رہے ہوں گے۔

تب شاید اسی نائی کی طرح غریب ان امیروں کو دیکھ رہے ہو گے۔
چہرے پر ایک عجیب سا سکون اور شاید دل ہی دل میں کہہ رہے ہوں گے۔۔۔۔!

”اج ای تے غربت دی چس آئی اے ۔۔۔۔

“ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں ہر ہر نعمت کا شکر ادا کرنے کی اور اللہ کی رضا کے مطابق استعمال اور تقسیم کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین….

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں