85

ایک منصف (جج) کو کیسا ہونا چاہیے؟

Spread the love

ایک منصف (جج) کو کیسا ہونا چاہیے؟؟؟؟

پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت ایک سپریم جوڈیشل کونسل ہے جو عدلیہ کی نگرانی کا اعلیٰ ترین ادارہ ہےسپریم جوڈیشل کے ججوں کے لیے بنائے گئے ضابطہ اخلاقیعنی کوڈ آف کنڈکٹ کے آرٹیکل 128 (4) میں ججز کے ضابطہ اخلاق کے 11 آرٹیکل ہیں
ان آرٹیکلز کے مطابق
آرٹیکل :1:ایک جج کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر معاملے میں مساوات کے اصول کو قائم رکھے
ارٹیکل :2:جج اعلیٰ کردار کا حامل ہو یعنی جملہ معاشی معاشرتی عیوب سے پاک ہو ، ذاتی رائے سے پاک ہو۔ آئین کا وفادار ہو اور صرف اللہ سے ڈرتا ہو۔
آرٹیکل نمبر 4 کہتا ہے کسی جج کو سختی کے ساتھ ایسے مقدمات کی سماعت سے پرہیز کرنا چاہیے جس میں خود اس کی اپنی یا اس کے عزیز و اقارب کی دلچسپی ہو
آرٹیکل 5. زیادہ سوشل نہ ہو، جج کا عمل عوام کے سامنے ہوتا ہے، اس لیے اسے وہ تمام شہرت مل جاتی ہے جو اس کے لئے ضروری ہے۔ اسے مزید شہرت کے پیچھے نہیں بھاگنا چاہیے ۔ اسے عوامی بحث میں حصہ نہیں لینا چاہیے خصوصاً کسی سیاسی معاملے میں
آرٹیکل کی اس آخری لائن کی آسان تشریح یوں ہے کہ
جج کوئی سیاسی وابستگی نہ رکھتا ہو،
اس کا جھکاؤ کسی ایک گروہ کی جانب نہ ہو
جج بذات خود سیاست دان مزاج نہ ہو۔
آرٹیکل 6 کہتا ہے ایک جج کو کوشش کرنی چاہیے کہ وہ خود یا کسی دوسرے کے ذریعے بھی ایسے کاروباری معاملات سے دور رہے جو کل کو اسے کسی مقدمہ بازی میں الجھا دیں۔ جج کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ وہ اپنی حیثیت کا استعمال ناجائز فائدہ اٹھانے کے لیے کرے
آرٹیکل 7: تحائف صرف رشتہ داروں یا قریبی دوستوں سے وصول کئے جائیں اور وہ بھی رسم و رواج کے مطابق۔ ہر وہ نوازش جو انصاف کے راستے میں رکاوٹ بنے اس سے اجتناب کیا جائے
یعنی کرپٹ نا ہو
آرٹیکل :10 : ججوں کو مختصر ترین وقت میں فیصلے کرنا چاہیئں تاکہ سائلین کی مشکلات میں کمی آئے
کیا موجودہ ججز اس میعار پر پورا اترتے ہیں؟؟؟
ججز کا اعلی کردار دیکھنا ہو یا تحائف کے متعلق آرٹیکل7 کی روشنی میں کسی جج کو دیکھنا ہو اس کے لیے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا کردار دیکھنا چاہیے جو اپنے بیٹے کے زریعے ریاض ملک سے کیسز کی ڈیل کرتا تھا جس کی فیملی ریاض ملک کے داماد کا کریڈٹ کارڈ استعمال کرتی تھی
زیادہ سوشل نا ہو؟؟؟؟
آج کا جج شہرت کا بھوکا ہے اس کے لیے وہ کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا چاہے ایسے قاضی کو میڈیا میں اِن رہنے کے لیے دو چپیڑیں کھانے والے ایک یوٹیوبر کے در پر حاضری ہی کیوں ناں دینی پڑے
جج کرپٹ ناں ہو سیاسی وابستگی ناں رکھتا ہو. کسی
پارٹی سے ہمدردی ناں رکھتا ہو کسی جانب جھکاؤ نا ہو؟؟؟
لیکن جسٹس شوکت صدیقی کے معاملے میں یہ آرٹیکل منہ کے بل گرا ہوا نظر آتا ہے جسٹس شوکت صدیقی عملی سیاست میں حصہ لے چکے ہیں اور انھوں نے جماعتِ اسلامی کے ٹکٹ پر راولپنڈی سے انتخابات میں بھی حصہ لیا تھا یعنی ان کی سیاست سے خصوصی قربت ہے
شوکت صدیقی وکلاء تحریک میں جلاؤ گھیراؤ گروپ کے فعال رکن تھے جسٹس چوہدری افتخار نے اپنی بحالی کی تحریک میں شوکت صدیقی کے کردار سے خوش ہو کر انھیں اسلام آباد ہائی کورٹ میں جج تعینات کروایا
جسٹس شوکت صدیقی کا واضع جھکاؤ ن لیگ کی طرف تھا کیونکہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی شوکت صدیقی پہ بے انتہا نواز شات رہی ہیں
سابق وزیر اعظم میاں نوازشریف نے جسٹس شوکت صدیقی کی سرکاری رہائش گاہ کے لیے خصوصی حکم نامہ جاری کیا تھا جسٹس صدیقی کو وہ رہائش پسند نہ آنے پر ایک دوسرا گھر الاٹ کیا وہ بھی نہیں پسند آیا تو فوری تیسرا گھر الاٹ کرنے کا حکم نامہ بھی جاری کیا

گھر کی الاٹمنٹ حاصل کرنے کے بعد جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو اسکی ڈیکوریشن پسند نہ آئی چنانچہ جج صاحب نے خلاف قانون اس کی تزئین و آرائش کیلئے سی ڈی اے کے عہدیداروں کو مجبور کیا کیونکہ یہ گھر پاک پی ڈبلیو ڈی کے پول پر تھا اور پاک پی ڈبلیو ڈی ہی اس گھر کی تزئین و آرائش کی ذمہ دار تھی لیکن جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے پی ڈبلیو ڈی کے افسران سے این او سی لے کر سی ڈی اے کے افسران کو دیا اور پھر اس سرکاری رہائش 2 اے سیکٹر F7 کی مرمت اور خوبصورتی پر سرکاری خزانے سے کروڑوں روپے لگا دیئے گئے
شوکت صدیقی کی رہائش گاہ کے پینٹ پر 372،000
واش رومز پر 0.9 ملین
مختلف الیکٹرک اشیا کے لیے 17 ملین
اور یورپین سٹائل کیچن بنوانے پہ 163،000
رہائش گاہ کے دو فینسی گیٹ لگوانے پہ 126،000
ایلومینیم ونڈوز اور ڈیکوریشن کی اشیاء پہ 770،000
ڈرائیوے پہ 275،000
ٹائلز لگوانے پہ 190،000 سرکاری خزانے سے
خرچ کئے گئے
علاوہ ازیں فاضل جج کے حکم پر سی ڈی اے نے سرکاری رہائش گاہ میں کبوتروں کا خصوصی پنجرہ بھی بنا کر دیا
سرکاری خزانے سے کروڑوں روپے ایک جج نے رہائش گاہ کی تزئین آرائش پر لگا دئیے
اور قانون کہتا ہے جج کرپٹ ناں ہو؟؟؟

جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے خلاف سی ڈی اے کے ایک ملازم نے سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس فائل کر رکھا ہے جس میں مصدقہ دستاویزات منسلک ہیں

آرٹیکل 6 کہتا ہے ایک جج کو کوشش کرنی چاہیے کہ وہ خود یا کسی دوسرے کے ذریعے بھی ایسے کاروباری معاملات سے دور رہے جو کل کو اسے کسی مقدمہ بازی میں الجھا دیں۔ جج کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ وہ اپنی حیثیت کا استعمال ناجائز فائدہ اٹھانے کے لیے کرے

لیکن جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے اپنی زاتی حثیت سے فائدہ اٹھاتے ہوے SECP ڈپارٹمنٹ میں اپنے بیٹے عبداللہ عمر صدیقی کو اسسٹنٹ ڈائریکٹر لیگل لگوا دیا

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے سی ڈی اے میں ڈائریکٹر اپنے دیرینہ یار منظور شاہ کو نوازنے کیلئے سی ڈی اے کو مجبور کیا اور سی ڈی اے سے منظور شاہ کو اس کے 1 کروڑ مالیت کے پلاٹ کے بدلے 5 کروڑ کے قیمتی پلاٹ پوش ایریا میں دلوائے یعنی سرکاری خزانے سے 4 کروڑ اپنے یار پہ نچھاور کر دئیے
مزید برآں ریفرنس کے مدعی علی انوار گوپانگ نے دستاویزات میں یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے سی ڈی اے افسران کو مجبور کرکے اپنے ایک دوست کی بیٹی کو بھرتی کروایا
جسٹس شوکت صدیقی سابق وزیراعظم نواز شریف سے نمک حلالی کرتے ہوے پانامہ کیسز اپیل بینچ کا حصہ بننا چاہتے تھے تاکہ انھیں ریلیف دے سکیں لیکن ان کی قسمت کے ایسا ہو ناں سکا جس کے بعد انھوں نے ایک جگہ تقریر کرتے ہوے کہا کہ ایجنسیز نے انھیں پاناما کیسز اپیل بینچ کا حصہ نہیں بننے دیا
جبکہ آرٹیکل نمبر 4 کہتا ہے کسی جج کو سختی کے ساتھ ایسے مقدمات کی سماعت سے پرہیز کرنا چاہیے جس میں خود اس کی اپنی یا اس کے عزیز و اقارب کی دلچسپی ہو

جسٹس شوکت صدیقی نے نواز شریف کی ترجمانی کرتے ہوے ISI کے اعلی عہدے داروں سے منسوب کرتے ہوے ایسے بیان جاری کرنے شروع کئیے جس کا حقیقت سے دور دور تک تعلق نہیں تھا مقصد صرف ایک تھا کہ عوام الناس کو بتایا جا سکے کہ نواز شریف کرپٹ پریکٹس پہ نہیں بلکہ ایجنسیز کے ہاتھوں رخصت ہوے نواز شریف کے بیانیے کو لیکر چلنا کسی جج کا کنڈکٹ کیسے ہو سکتا ہے؟؟؟
کیا یہ جج تھا یا پھر تیسرے درجے کا دلال جو اپنے پیشے سے وفا ناں کر سکا
شوکت صدیقی نے اداروں پہ جتنے بھی الزامات لگائے سپریم جوڈیشل کمیشن میں اس کا ایک بھی پروف پیش نہیں کرسکے
جسٹس شوکت صدیقی اکثر ” کسی” کو خوش کرنے کے لیے ایسے فیصلے صادر فرمائے تھے جن سے ان کا بغض عیاں ہو جاتا تھا جیسے کہ انھوں نے اسلام آباد انتظامیہ کو حکم دے کر مشہور زمانہ پریڈ گراؤنڈ کا نام تبدیل کروا کر “ڈیموکریسی پارک” رکھ دیا اور اسے سیاسی سرگرمیوں کے لیے مختص کر دیا ۔ کیونکہ اس گراونڈ پر پاک فوج سالانہ پریڈ کرتی ہے۔

آخر میں سب سے اہم بات پہ آتے ہیں ججز کا کوڈ آف کنڈکٹ کا آرٹیکل 10 کہتا ہے ججوں کو مختصر ترین وقت میں فیصلے کرنا چاہیئں تاکہ سائلین کی مشکلات میں کمی آئے

کیا غریب آدمی نسل در نسل تاریخ پہ تاریخ نہیں بھگتتا؟؟
کیا اشرافیہ کے لیے چھٹی کے روز بھی عدالتیں کھلوا کر ضمانتیں نہیں دی جاتیں؟؟؟
یہ بات بھی انتہائی دلسوز ہے کہ ہماری عدلیہ کارکردگی کے لحاظ سے عالمی رینکنگ میں 128 ممالک میں سے 120 نمبر پر ہے جبکہ ملک میں ججز سب سے زیادہ تنخواہیں لیتے ہیں قرضوں میں جکڑی پاکستانی عوام کے ایک جج پہ یومیہ 55 ہزار روپے خرچ ہوتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں