جی ٹی روڈ کی تاریخ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سولہوویں صدی میں جب شیر شاہ سوری نے جب ہندوستان میں اپنی حکومت قائم کی تو اس کی ترجیحات میں 2500 کلومیٹر طویل قدیم سڑک جی ٹی روڈ کی تعمیرِ نو تھی، جو کابل سے لے کر چٹاگانگ تک پھیلی تھی ، تاکہ سرکاری پیغام رسانی اور تجارت کو مؤثر اور تیز تر بنایا جائے۔اس سڑک کے بارے میں روایت ہے کہ اس کا پہلے نام جرنیلی سڑک تھا جو بعد میں انگریزوں کے دور حکمرانی میں بدل کر جی ٹی روڈ یعنی گرینڈ ٹرنک روڈ رکھا گیا۔ سینکڑوں سال قدیم اس سڑک کا گزر کابل سے ہوتا ہوا پہلے لاہور پھر دہلی سے ہو کر بالآخر کلکتہ اور پھرچٹاگانگ جا کر ختم ہوتا تھا. کابل افغانستان میں حکومتوں کا مرکز رہا, دہلی مغل بادشاہوں اور پھر کلکتہ انگریز سرکار کی حکومت کا ہیڈ کوارٹر بنا۔اکبر بادشاہ اسی جرنیلی سڑک کے ذریعے حکومتی مرکز لاہور آتا اور پھر اس سڑک کے قریب اکبر بادشاہ کے دور میں ہی لاہور میں دھرم پورہ کا علاقہ آباد کیا گیا جہاں پر حضرت میاں میر بالا پیر کی دربار پر اورنگزیب عالمگیر بھی حاضری کے لیے آتے رہے ہیں۔وہ
وقت گزر گیا جب کابل سے کلکتہ تک بغیر کسی سرحد کے اس روٹ کے تحت حکمران اور عوام سفر کیا کرتے تھے۔ شیر شاہ سوری کو کیا معلوم تھا کہ وہ جو سڑک تعمیر کر رہا ہے، 400 سال بعد اسی سڑک کو اس خطے کی تقسیم کے دوران تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت کے لیے استعمال کیا جائے گا۔اب جرنیلی سڑک چار ملکوں میں تقسیم ہے۔ افغانستان، پاکستان ، ہندوستان اور بنگلہ دیش چار ملکوں کے حصے میں آنے والی یہ جرنیلی سٹرک تو موجود ہے لیکن اس کی شکل بدل گئی ہے اور اس سڑک کے ساتھ ساتھ شاہراہوں کا جدید نظام متعارف ہونے کے بعد یہاں پر آمد و رفت بھی کُچھ کم ہوگئی ہے۔.