145

کہتے ہیں آپ دو لوگوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے

Spread the love

کہتے ہیں آپ دو لوگوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے
1: جو ندی کے پار کھڑا گالیاں دے
2 :جو منہ پر جھوٹ بولے
حامد میر میں یہ دونوں خصوصیات ہیں
جب اداروں کے خلاف بےبنیاد الزام تراشی کو جواز بنا کر جیو نے لو ریٹنگ پہ چلتے پروگرام کے اینکر حامد میر کو کک آوٹ کیا تو حامد میر نے ہر چینل کے مالک سے رابطہ کیا لیکن کوئی بھی چینل اور اخبار حامد میر کو منہ لگانے پہ تیار نہ ہوا
چنانچہ حامد میر نے اپنے ابا جی وارث میر کے پرانے مالکان یعنی مکتی باہنی کی باقیات سے رابطہ کیا اور بنگالی اخبار کے لیے لکھنا شروع کیا
حامد میر جانتا تھا کہ بنگلہ، پاکستان میں کس نے پڑھنی کس نے اسے جھوٹا ثابت کرنا
ندی کے دوسرے کنارے لکھے گئے جھوٹوں کا پردہ کس نے فاش کرنا
چنانچہ حامد میر نے بنگالی اخبار میں پاکستان میں صحافیوں پر ہونے والے ظلم کی داستان رقم کی اور سیاسی خبروں کی بنیاد پر قتل ہونے والے عزیز میمن اور اجے للوانی جیسے صحافیوں کا قتل بھی اداروں پہ ڈال دیا حالانکہ سب جانتے ہیں کہ عزیز میمن اور اجے للوانی کے قتل کے محرکات کیا تھے اور وہ کس بنا پر قتل ہوے کسی سیاسی جماعت کو ایکسپوز کرنے پر عزیز میمن اپنی زندگی بچانے کے لیے چھپتا پھرتا تھا
اسی پیج پہ میں اسے کے کلپس آپ لوڈ کر کے حکومت سے اس کی حفاظت کی درخواست کیا کرتی تھی
حامد میر کے والد وارث میر بھی مکتی باہنی کے لیے ظلم و ستم کی خیالی کہانیاں لکھا کرتے تھے آج وہی کچھ حامد میر کر رہا ہے تو اچنبا کیسا
کیا حامد میر نے بنگلہ دیش میں عاصمہ جہانگیر کے پہلو میں بیٹھ کر بنگالی حکومت کو یہ نہیں کہا تھا کہ 1971 مین جن بنگالیوں نے پاکستان کا ساتھ دیا تھا آپ ایک ٹربیونل قائم کر کے انھیں سزائیں دیں یہ وڈیو آج بھی موجود ہے
حسینہ واجد نے حامدمیر کے مشورے پر وار ٹربیونل قائم کرکے جماعت اسلامی کے رہنماؤں کو پھانسیاں دینی شروع کیں۔ اور جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے 70 سالہ بزرگ حامد میر کے مشورے پر پھانسی چڑھا دئیے گئے
آج حامد میر بنگلہ دیش کے اخبارات میں پاکستان کے ظلم و ستم کا ڈھنڈورا پیٹ کر بیرونی دنیا سے ویسی ہی مدد چاہتا ہے جیسی وارث میر مغربی پاکستان کے ظلم و ستم کی جھوٹی داستانیں سنا کر مانگا کرتا تھا ان خدمات کے اعتراف میں چند سال قبل بنگلہ دیش نے خصوصی طور پر وارث میر کو ایوارڈ سے نوازا تھا
اگر آپ پہ ظلم ہوتا آپ پر پاکستان میں پابندی ہوتی تو کیا آپ یہ جھوٹی کہانیاں لکھ پاتے؟؟؟
کیا پاکستان میں آزادی اظہار رائے کی آڑ میں گھناؤنے عزائم پورے نہیں کئے جا رہے؟؟؟
جس بنگلہ دیش کے اخبارات میں حامد میر پاکستانی صحافیوں کے متعلق جھوٹی کہانیاں سنا رہا اس بنگلہ دیش میں آفیشل سیکرٹس ایکٹ کے تحت صحافیوں کو حکومت کے خلاف خبر کیا بات کرنے کی بھی اجازت نہیں
بنگلہ دیش کے صحافی مشتاق احمد کو یاد کرو جو اپنی زندگی میں جیل سے باہر نہ آ سکا بار بار ضمانت کی درخواست مسترد ہوئی اور بالآخر وہ اسی سال 25 فروری کو جیل میں انتقال کر گئے
بنگلہ دیشی حکومت کے خلاف موقف رکھنے پر بنگلہ دیشی ایجینسیز نے 40 سالہ ساگر سرور اور ان کی اہلیہ مہرالنرونی کو ان کے فلیٹ میں ان کے 5 سالہ بچے کے سامنے چاقو کے وار کر کے ہلاک کیا
بنگلہ دیش میں حکومت کے خلاف ایک کارٹون بنانے کی پاداش میں پینتالیس سالہ کارٹونسٹ، احمد کبیر کشور کو مئی دوہزار بیس میں گرفتار کیا گیا اور ریاست مخالف سرگرمیوں اور افواہیں پھیلانے میں ملوث ہونے کا الزام لگا کر بےپناہ تشدد کے بعد ڈیجیٹل سیکیورٹی کے کالے قانون کے تحت مقدمہ دائر کر کے پابند سلاسل کر دئیے یاد رکھیے صرف ایک کارٹون بنانے پر
یہی نہیں صحافی تسنیم خلیل کو بنگلادیش کی حکومت پر تنقید کی پاداش میں ملک کی عسکری انٹیلی جنس ایجنسی نے اٹھایا اور کھال تک ادھیڑ دی بلکہ اس کی والدہ کو بھی حکومت کی سختیوں کا سامنا کرنا پڑا
ایسے ہزاروں صحافی ہیں جو بنگلہ دیش کی جیلوں میں قید ہیں درجنوں بے دردی سے قتل ہو چکے ہیں
بنگلہ دیش کی ترقی میں سے ایک راز یہ بھی ہے کہ وہ آزادی اظہار رائے جیسی لغویات کو مانتے ہی نہیں اپنے صحافی جیلوں میں جبکہ اپنے اخبارات دوسرے ممالک کے سنپولیوں کے لکھنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں