160

ٹرانسجینڈر پروٹیکش بِل

Spread the love

تحریر : عنابِغ علی

“ٹرانسجینڈر پروٹیکش بِل” بظاہر بھرپور شکوک و شبہات اور تضادات کا مجموعہ ہے۔

تضاد کی مثال پیش کردہ شقوں کا موازنہ ہے، ایک جانب یہ لکھا گیا ہے کہ ٹرانسجینڈر کو اسکے ذاتی طے شدہ جنس کے مطابق تمام تعلیمی اداروں میں داخلے دیے جائیں۔ دوسری جانب حکومتی ذمہ داریوں میں انکے لیے الگ جیل، کئیر سینٹرز، ویلفیئر ہوم وغیرہ کے قیام کی تجویز ہے۔

میرے خیال میں “حدُود” کا تعین ہر مذہب معاشرے اور معاشرت کا حُسن ہے۔
خواجہ سرا بالکل اسی طرح اللہ کی تخلیق ہیں جس طرح مرد یا عورت، لہٰذا، انہیں تیسری جنس کے طور پر حقوق دینا تو سمجھ آتا ہے، لیکن انہیں باقی دو جنس میں “مِکس” کرنا غیر منطقی ہے۔
لڑکیوں کے کالج میں لڑکے یا لڑکوں کے ادارے میں لڑکیاں داخلہ نہیں لے سکتے تو یقینن تیسرے فریقین کو بھی اسی طرح ٹریٹ کیا جانا چاہیے.

جنس کا تعین “personal perception ” کی بنیاد پر نہیں بلکہ طبی سطح پر ہونا لازم ہے، بالکل ویسے ہی جیسے مرد و عورت کا تعین طبی بنیادوں پر ہوتا ہے۔

اس بِل میں دانستہ یا نادانی میں جس “mix achaar” کی منصوبہ سازی کی گئی ہے، وہ سازش سے زیادہ کم فہمی، لاعلمی اور بیوقوفی کی ترجمانی ہے۔

خواجہ سراؤں کے حقوق کے نام پر ایک عجیبب “miscellaneous ” قسم کے سوشل سیٹ اپ کا آئیڈیا، افسوسناک ہے.

ٹرانجینڈر کو تیسری جنس قرار دے کر انکے لیے سازگار ماحول و مواقع پیدا کیے جانا خوش آئند ہوگا، بصورتِ دیگر، فقط تباہی ہے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں