75 سال بعد جناح ہاؤس لاہور کا راز فاش ہو گیا۔ لاہور کا کورکمانڈر ہاؤس جہاں قائداعظم ایک رات بھی نہیں رہے
بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ لاہور کا کور کمانڈر ہاؤس قائد اعظم محمد علی جناح نے 1943 میں ایک لاکھ 62 ہزار روپے میں خریدا تھا۔
لاہور میں مظاہرین کے ہاتھوں جلایا جانے والا کور کمانڈر ہاؤس صرف اس لیے تاریخی اہمیت کا حامل نہیں کہ یہ ایک قدیم عمارت تھی جسے قومی ورثے کے تحت تحفظ حاصل تھا بلکہ اس کی اہمیت یوں بھی ہے کہ یہ لاہور میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا گھر تھا۔
اس عمارت کا شمار قائداعظم کی چار جائیدادوں میں ہوتا ہے۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ قائد اعظم نے کراچی اور لاہور والے جناح ہاؤس بمبئی میں واقع اپنا لٹلز گبز والا بنگلہ اور مے فیئر فلیٹ 1943 میں فروخت کر کے خریدے تھے۔ انہیں معلوم ہو گیا تھا کہ پاکستان بننے والا ہے اور انہیں کراچی اور لاہور میں رہائش گاہوں کی ضرورت ہو گی۔
جناح ہاؤس لاہور کی جائیداد کن کن لوگوں کے نام رہی؟
جناح ہاؤس لاہور جہاں واقع ہے یہ جائیداد لالہ شیو دیال سیٹھ کے نام تھی، جو لاہور کی اہم سماجی شخصیت تھے اور تعمیرات سے وابستہ تھے۔ انہوں نے 1935 میں اپنی وفات سے کچھ سال پہلے یہ جائیداد خواجہ نذیر احمد کو فروخت کر دی جنہوں نے یہ جائیداد اپنی بیگم کے نام کر دی۔ ان کی بیگم نے یہ بنگلہ لالہ موہن لال بھابن کو فروخت کر دیا۔ قائداعظم نے یہ بنگلہ موہن لال سے جولائی 1943 میں ایک لاکھ 62 ہزار 500 روپے میں خریدا تھا۔
جناح ہاؤس فوج کے پاس کیسے پہنچا؟
قائد اعظم نے جب یہ مکان خریدا تو اس سے پہلے ہی یہ بنگلہ برطانوی فوج نے کرائے پر حاصل کر رکھا تھا جس کا ماہانہ کرایہ علامتی طور پر پانچ روپے تھا کیوں کہ ڈیفنس آف انڈیا رولز کے تحت برطانوی فوج کوئی بھی جائیداد حاصل کر سکتی تھی۔
جب قائد اعظم نے یہ مکان خرید لیا تو فوج کی کرایہ داری کی میعاد ختم ہونے والی تھی تاہم فوج نے پھر اسی رول کے تحت اس میعاد میں توسیع کر لی۔
قائد اعظم اور برطانوی فوجی حکام کے درمیان ڈیڑھ سال خط و کتابت ہوتی رہی کیوں کہ قائد اعظم نہ صرف اپنے مکان کا قبضہ واپس لینا چاہتے تھے بلکہ انہیں اس مکان میں ہونے والی تعمیراتی تبدیلیوں پربھی اعتراض تھا۔
اس پر پنجاب کے سیکریٹری داخلہ مسٹر ولیمز نے مداخلت کی اور یکے بعد دیگرے تین آئی سی ایس افسران جی ڈی کھوسلہ، ایس این ہسکر اور شیخ عبد الرحمٰن کو ثالث مقرر کیا کہ وہ فوج اور مسٹر جناح کے درمیان معاملہ حل کروائیں۔
یہ تو معلوم نہیں ہو سکا کہ قائد اعظم یہ گھر فوج سے خالی نہیں کروا سکے یا پھر ان کی مرضی کے مطابق کرائے میں 700 روپے کا اضافہ ہو گیا۔ نئے معاہدے کی میعاد اپریل 1947 مقرر ہو ئی۔
لاہور کا کور کمانڈر ہاؤس قائد اعظم محمد علی جناح نے 1943 میں ایک لاکھ 62 ہزار روپے میں خریدا تھا
سعد ایس خان اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ کرایہ نامہ کی میعاد ختم ہونے سے چند ہفتے قبل ہی تین جنوری 1947 کو قائد اعظم کو گیریژن انجینیئر لاہور کی طرف سے مراسلہ موصول ہوا جس میں انہوں نے لکھا:
’لاہور کے ایریا کمانڈر کی طرف سے مجھے حکم ملا ہے کہ میں آپ کو افسوس کے ساتھ مطلع کروں کہ لاہور میں فوجی ضروریات کے لیے عمارتوں کی شدید کمی کے باعث، آپ کا مکان بطور فوجی میس کے کام آ رہا ہے، آپ کو کرایہ کی میعاد ختم ہونے کے بعد بھی تاحکم ثانی واپس نہیں کیا جا سکے گا۔ اس عسکری لاچاری کے باعث آپ کی جو دل آزاری ہوئی اس کے لیے ہم آپ سے معذرت خواہ ہیں۔‘
قائد اعظم برطانوی فوج کے اس جواب سے مطمئن نہیں تھے اور اپنے مکان کو ہر صورت واگزار کرانا چاہتے تھے لیکن اسی دوران لاہور ہندو مسلم فسادات کی لپیٹ میں آ گیا۔