223

کشمیر کی باکردار و باصلاحیت خواتین پوری دنیا کے لیے ایک مثال

Spread the love

دنیا میں ایک خوبصورت وادی پائی جاتی ہے جسے جنت کا عکس کہا جاتا ہے: جیسے وادی کشمیر کہتے ہیں، اس کے خوبصورت مناظر کی وجہ سے مغل شہنشاہ ظہیرالدین بابرنے کہا تھا کہ کشمیر زمین پر جنت ہے۔اس کا وہ حصہ جو آزاد ہے وہ پاکستان کے حصہ میں آتا ہے، جو نیلم سے شروع ہوتا ہے اور مظفر آباد سے ہوتا ہوا، پونچھ، میر پور اور بھمبر تک جاتا ہے:
‏‎آزاد کشمیر کی کل آبادی:
آزاد ریاست جموں اینڈ کشمیر کا یہ علاقہ13300مربع کلو میٹر 5350مربع میل رقبہ پر مشتمل ایک گول پٹی نما علاقے پر پھیلا ہواہے، جسکی لمبائی زیادہ ہے مگر چوڑائی کم ہے۔ مظفرآباد اسکا دار الحکومت ہے اور اس کی آبادی اندازہ 40 لاکھ ہے۔ ایک عام اندازے کے مطابق پاکستان میں عورتوں اور مردوں کا تناسب ۵۲اور ۴۸ فیصد ہے یعنی عورتوں کی تعداد ۴ فیصد زیادہ ہے۔ ریاست جموں کشمیر میں گو کہ کوئی ایسا سروے موجود نہیں مگر یہاں بھی عورت اور مرد کے تناسب کو پاکستان اور بھارت کے تناسب کے ساتھ ہی موسوم کیا جاتا ہے۔
‏‎علاقے کی زبان:
‏‎اردو یہاں کی سرکاری زبان ہےاور مقامی زبانوں میں پہاڑی زبان، ہندکو، گوجری، پنجابی اور کشمیری قابل ذکر ہیں۔ آزاد کشمیر کی شرح تعلیم 85 فیصد سے زیادہ ہے مگر بعض اضلاع میں سو فیصد ہے۔ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اگرچہ تعمیر وترقی کے لحاظ سے پیچھے ہے لیکن تعلیمی اعتبار سے اس کا کوئی ثانی نہیں۔ شرح خواندگی کے لحاظ سے یہ پاکستان کے صوبوں سے آگے ہے۔ یہاں کے پسماندہ ترین ضلع حویلی میں واقع ’جبی سیداں‘ ایک ایسا گاؤں ہے جو تعلیمی قابلیت کے اعتبار سے دنیا کے تعلیم یافتہ علاقوں پر سبقت کا حامل ہے۔ اس گاؤں کو پاکستان بھر میں دو اعتبار سے منفرد مقام حاصل ہے۔ ایک تو یہاں کا تعلیمی تناسب 100 فیصد ہے اور دوسرا یہ کہ تعلیم کی بلند شرح کے ساتھ جرائم کی شرح صفر ہے۔ اور ویسے بھی آزاد کشمیر میں جرائم کی شرح پورے پاکستان کی نسبت کافی کم ہے۔ زیادہ شرح تعلیم کی وجہ یہ ہے کہ یہاں سکول و دیگر تعلیمی ادارے زیادہ ہیں اور 12 اعلٰی معیار کی یونیورسٹیز ہیں:
‏‎کشمیر کی باکردار خواتین:
خواتین نو عِ انسانی کا نصف حصہ ہیں ؛وہ انسانی معاشرے کا ایک لازمی اور قابل احترام کردار ہیں۔اسلام نے خواتین کے لیے اجر وثواب اور خدمات وطاعت کے وہ مواقع رکھے ہیں ؛جو مردوں کے لیے ہیں ۔قرآن کریم کا اعلان ہے : مَنْ عَمِلَ صَالِحاً مِّن ذَکَرٍ أَوْ أُنثَی وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہُ حَیَاۃً طَیِّبَۃً وَلَنَجْزِیَنَّہُمْ أَجْرَہُم بِأَحْسَنِ مَا کَانُواْ یَعْمَلُونَ۔(النحل: ۹۷)یعنی جس نے نیک عمل کیا؛چاہے وہ مرد ہو یا عورت، اس حال میں کہ وہ مومن ہو، تو ہم اسے پاکیزہ زندگی عطا کریں گے اور ہم انھیں ان کے اعمال کا بہترین بدلہ دیں گے ۔
آزاد جموں کشمیر میں بھی سماج پر مذہب کی چھاپ ہے، لیکن مذہب عورت کی تعلیم و ترقی کے آڑے کبھی نہیں آیا، بلکہ یہاں تو کچھ انجمنیں بھی سکول چلاتی ہیں جہاں لڑکے اور لڑکیاں ایک ساتھ زیر تعلیم ہیں۔ اصل میں لڑکی کو بچپن سے ہی والدہ اتنا مضبوط اور باکردار بنا دیتی ہے کہ وہ پوری زندگی کہیں دھوکہ نہیں کھاتی: آج ہمارے میڈیکل کالجز میں 80 فیصد طالبات ہیں مگر وہ شرم و حیا کا مرکب نظر آتی ہیں اور مہارت میں طلبا سے کہیں آگے نظر آتی ہیں

‏‎پاکستان کی نسبت کشمیری خواتین زیادہ بہادر اور تعلیم یافتہ اور ملازم پیشہ ہیں:ایسا کیوں ہے؟

‏‎گھریلو خواتین زیادہ تر باپردہ ہیں مگر تعلیم یافتہ خواتین اور ملازم پیشہ خواتین بھی شرم و حیا سے مزین ہیں اور چادر کا استعمال کرتی ہیں۔
یہاں پر مذہبی رحجان اور خاندانی رسم و رواج پورے معاشرے پر حاوی ہیں جس کی وجہ سے ان خواتین کے مزاج اور کردار میں منفی طاقتیں یا برائی کی کمانڈر طاقتیں بہت کم اور ناپائید ہیں مثلاً ان خواتین میں غصہ، حسد، پچھتاوا، غم، لالچ، تکبر، خود پرستی، جرائم، ناراضگی، جھوٹ، مکر و فریب ،مکاری، تکبر، احساس برتری یا انا پرستی کم ہے، ان کردار کی وجہ سے وہ اچھی بیٹیاں، اچھی بہنیں، اچھی بیویاں اور اچھی مائیں ثابت ہوتی ہیں، ان خواتین میں خاندانی جھگڑے، طلاق اور دوسرے مسائل کم ہیں۔

ملازمت پیشہ خواتین اپنے کردار کی عکاس ہیں:

ملازم پیشہ خواتین مردوں کی نسبت ادارے کو زیادہ وقت دیتی ہیں اور ادارے کے ساتھ وفادار رہتی ہیں، کام سے کام رکھتی ہیں اور فضول گفتگو میں حصہ نہیں لیتیں۔ہر جگہ اچھے اور برے لوگ ہوتے ہیں اور ہر ایک انسان کا تجربہ مختلف ہوسکتا ہے مگر میرے ساتھ چند خواتین کام کرتی ہیں وہ میچور اور باصلاحیت ہیں، ان کا کام اور کردار مثالی ہے،مجھے ہر جگہ کام کرنے کا موقع ملا مگر مظفر آباد میں جو ایماندارانہ ماحول نصیب ہوا وہ شاید کہیں نہیں مل سکے گا۔مثلاً : پروفیسر شفق حنیف، پروفیسر منزہ نذیر، پروفیسر نوشینہ ، پروفیسر مریم زبیر،پروفیسر اُرم گیلانی، ڈاکٹر روبینہ، ڈاکٹر محسنہ سعید ، ڈاکٹر سیماب ظفر، ڈاکٹر ذوبیہ عدنان، ڈاکٹر سارہ کانٹ، ڈاکٹر ناہید اکرم، ڈاکٹر فرزانہ صابر، ڈاکٹر نمرہ بشیر، ڈاکٹر بشری۔ ڈاکٹر مہتاب، ڈاکٹر ارم شہزادی، ڈاکٹر حنا، ڈاکٹر عائشہ ممتاز، ڈاکٹر انم انجم، ڈاکٹر شگفتہ منظور، ڈاکٹر فوزیہ ،ڈاکٹر گل، ڈاکٹر بشری شمس، پروفیسر بشری شیروانی، ڈاکٹر شمائلہ منظور، ڈاکٹر فاخرہ گردیزی، ڈاکٹر مسز شوکت حیات، مس انم رشید، مس مریم رفیق، مس رابعہ خان، مس عابدہ اکبر و دیگر خواتین ناصرف اپنے پیشے میں مہارت، کے لحاظ سے اپنا ثانی نہیں رکھتی بلکہ اپنے کردار میں بھی مثالی خواتین ہیں:

‏‎چونکہ انسان کے جو خیالات ہوتے ہیں وہی اس کا کردار اور مستقبل ہوتا ہے۔ انہیں کا اثر انسان کے ضمیر پر پڑتا ہے اگر اچھائی کی طاقت غالب آ جائے تو انسان پرسکون رہتا ہے اور خاص طور پر موت کے وقت اسے یہ پچھتاوا نہیں رہتا کہ میں گھاٹے کا سودا کر کے جا رہا ہوں ۔ یہی کردار کشمیر کی خواتین میں نظر آتا ہے۔
گفتگو کی سمری
اسلام نے عورت کو جو عزت اور تکریم دی ہے، جس سے وہ معاشرے کا ایک موثر اور باوقار حصہ بن گئی اور اس نے زندگی کے ہر شعبے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ سیاسی و انتظامی اور سفارتی کردار کے علاوہ تعلیم و فن کے میدان میں بھی عورتیں نمایاں مقام کی حامل تھیں۔ اسلامی دنیا میں طب، انجینئرنگ، انفارمیشن ٹیکنالوجی، میڈیا، جراحت، فنانس، انتظامیہ، کمپیوٹر ، کتابت، شعر و ادب اور دیگر علوم و فنون میں بھی بے شمار خواتین مہارت اور سند کا درجہ رکھتی ہیں۔ اس ساری گفتگو کی عکاسی آپکو کشمیر کی وادی میں نظر آئیگی: کشمیر کی باکردار و با حیا خواتین پیشے اور مہارت میں باکمال ، ادارے کیلیے مخلص، خاوند، بچوں اور گھر کی باوفا ثابت ہوتی ہیں۔ یہ خواتین محنت کے لحاظ سے اپنا ثانی نہیں رکھتی بلکہ اپنے کردار میں بھی مثالی خواتین ہیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں