مسلمانوں کی ادب کی تاریخ بھی شاندا ر ہے۔ آج سے ۱۱۸ سال پہلے برصغیر میں کسی خاتون کے صحافی ہونے اور ہفت روزہ اخبار کی ایڈیٹر ہونے کا شائد کو ئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔
سیدہ محمدی بیگم بائیس مئی 1878 کو دہلی کے ایک گاؤں شاہپور میں پیدا ہوئیں۔ ان کی والدہ کا نام زیب النساء اور والد کا نام سید احمد شفیع تھا۔ سیدہ محمدی بیگم کی عمر صرف تین سال تھی جب ان کی والدہ کا انتقال ہو گیا۔ ان کی دیکھ بھال اور پرورش کی ذمہ داری ان کی پھوپھی نے اٹھائی ۔ آپ کے والد سرکاری ملازم تھے ان باربار تبادلے کی وجہ سے سیدہ محمدی بیگم باقاعدہ تعلیم حاصل نہ کر پائیں۔ لیکن اپنے شوق کی وجہ سے سیدہ محمدی بیگم نے گھر پر ہی پڑھنا اور لکھنا سیکھ لیا۔ سیدہ محمدی بیگم اپنے بھائی سے انگریزی گرائمر کی کتاب پڑھنے کے ساتھ ساتھ انھوں نے نقوش سلمانی اور سفر نامہ شبلی جیسی کتابیں بھی پڑھ ڈالیں۔ ۳۰ نومبر ۱۸۹۷ کو سیدہ محمدی بیگم کی شادی مولوی ممتاز علی سے ہوگئی، شادی کے ۵ ماہ بعد مولوی ممتاز علی نے اخبار تہذیب نسواں جاری کیا اور سیدہ محمدی بیگم کو اس کا ایڈیٹر بنا دیا۔ یوں گھریلو ذمہ داریوں کے ساتھ پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کا بھی آغاز ہو گیا۔
تہذیب نسواں خواتین کے لیے شائع ہونے والا پہلا ہفت روزہ اخبار تھا۔ جو پچاس سال سے زائد تک کامیابی سے شائع ہوتا رہا۔ تہذیب نسواں کو یہ اعزاز بھی حاصل تھا کی اس کی ایڈیٹر ایک خاتون تھیں۔ برصغیر میں خواتین کی تعلیم و تربیت میں اس اخبار کا کردارناقابل فرمواش ہے۔ تہذیب نسواں برصغیر کی خواتین کے لیے ایک پلیٹ فارم ثابت ہوا جہاں سے ان کی ہمہ پہلو تربیت کاکام بھی ہوا اور انھوں نے اپنے حقوق کے لیے آواز بھی اٹھائی۔ محمدی بیگم نے نہ صرف اپنے قلم کے ذریعے خواتین کے مسائل اجاگر کیا۔ساتھ ساتھ ان مسائل کے حل کے لیے تجایز بھی دیں۔ اس کے ساتھ انہوں نے عملی طور پر جد و جہد بھی کی اس جدوجہد کے کے نتائج لیڈز کانفرنس ، زنانہ مجلسیں ، انجمن خاتون ہمدرد ، خیرات فنڈ ، زنانہ محتاج خانہ ، زنانہ سٹور ، انجمن تہذیب نسواں اور زنانہ لائیبریری کی صورت میں رونما ہوئے۔ محمدی بیگم کی کوششوں سے چڑیا گھر ، شالیمار باغ، اور عجائب گھر کو ایک دن کے لیے خواتین کے لیے مخصوص کر دیا گیا۔ محمدی بیگم کی ادبی ذندگی کا آغاز شادی کے بعد ہوا۔ انھوں نے خواتین اور بچوں کے لیے لکھا۔ وہ ۳۰ سے زاٗد کتابوں کی مصنفہ تھیں۔ ان کی ۲۴ مطبوعہ کتابوں میں ۱۸ نثر اور ۶ شاعری پر مشتمیل ہیں۔ محمدی بیگم نے ۱۹۰۴ میں ماؤں کے لیے ایک مخصوص رسالہ نکالا جس کا نام مشیر مادر تھا۔ اس رسالے میں ماؤں کے لیے مفید ہدایات اور مضامین کے علاوہ بچوں نگہداشت اور ان کی تعلیم و تربیت کے متعلق تحریریں شائع ہوتیں تھیں۔ چونکہ ایک وقت میں تمام گھریلو ذمہ داریوں ساتھ ایک اخبار اور رسالہ کی ادارت ممکن نہ تھی اس لیے سیدہ محمدی بیگم نے مشیرمادر کو تہذیب نسواں میں ضم کر دیا۔ آج خواتین میں جو بیداری پائی جاتی ہے اس کی داغ بیل سیدہ محمدی بیگم نے رکھی تھی۔انہوں نے نہ صرف اپنے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے خود بہت سارے مضامین لکھے بلکہ خواتین سے بھی لکھوائے۔ ۱۹۰۷ میں ایک تنظیم انجمن خاتونان ہمدرد کی بنیاد ڈالی۔ جس کے ساتھ ایک دار نسواں بھی تھے۔ جس میں غریب اور نادار خواتین کو مختلف ہنر سیکھائے جاتے اور ان کو روزگار کے قابل بنایا جاتا تھا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد انہوں نے مجلس تہذیب نسواں کی بنیاد رکھی۔ سیدہ محمدی بیگم اس تنظیم کی صدر تھیں۔ اس قدر کام کرنے سے آپ کی صحت خراب ہو گئی اور آپ علیل رہنے لگیں۔ لیکن آپ بیماری کے باوجود تہذیب نسواں کی ادرات کرتی رہیں۔ آخر کار آپ کی صحت شیادہ خراب ہوگئی علاج کے ساتھ آپ کو ڈاکٹر کے مشورے پر شملہ لے جایا گیا تاکہ پرفضا مقام کا آپ کی صحت پر خوشگوار اثر ہو لیکن بہت دیر ہو چکی تھی۔ آپ تیس سال کی عمر میں ۲ نومبر ۱۹۰۸ کو خالق حقیقی سے جا ملیں۔ آ پ کی وصیت کے مطابق آپ کو لاہور کے مومن پورہ قبرستان میں دفن کیاگیا۔ سیدہ محمدی بیگم کی ۲۴ مطبوعہ کتابیں مندرجہ ذیل ہیں۔
خانہ داری ، آداب ملاقات ، نعمت خانہ ، رفیق عروس ، خواب راحت ، حیات اشرف ، سگھڑ بیٹی ، شریف بیٹی چندن بار ، آج کل ، صفیہ بیگم ، سچے موتی ، انمول موتی ، آرمی ، امتیاز ، تاج پھول ، ریاض پھول ، تاج گیت ، تین بہنوں کی کہانی ، علی بابا چالیس چور ، دل پسند کہانیاں ، پان گلوری ، چوہے بلی نامہ، دلچسپ کہانیاں ، مشیر مادر۔
152