118

نہاری تمام پکوانوں پہ بھاری

Spread the love

تاریخ دانوں کے مطابق ، 17 ویں صدی میں ، شاہ جہاں کو دہلی میں اپنا دارالحکومت قائم کرنے کے فورا بعد ہی بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ان میں سے ایک بڑی تعداد میں پھیلا ہوا فلو بھی تھا اس زمانے میں سردی بھی بہت عروج پر تھی اور شاہجہان اپنی فوج کو اس فلو اور سردی سے بچانے کے لیے سوچنے لگا اس کے بعد ہی شاہی خانسامہ اور(شاہی حکیم) نے مصالحے سے بھرے ایک مضبوط اسٹائو تیار کرنے کے لئے اپنے ہاتھ جوڑ لئے جو جسم کو گرم اور مضبوط بنائے گا۔ لہذا ،اس طرح نہاری کی ابتدا ہوئی اور دہلی میں تو نہاری کی دھوم آج تک ہے جس میں کریم کا نام سر فہرست ہے مجھے وہاں جا کر نہاری کھانے کا شرف حاصل ہو چکا ہے وہاں بیٹھے ایک استاد کے مطابق یہ ان کی ساتویں نسل ہے جو نہاری کے ذائقہ کو برقرار رکھے ہوئے ہیں ان کے رشتہ دار لاہور میں بھی ہیں
لفظ “نہار” عربی زبان سے شروع ہوا ، “نہار” جس کا مطلب ہے “صبح”۔ یہ اصل میں نوابوں نے مغل سلطنت میں صبح کی نماز کے بعد ناشتے کے طور پر کھایا تھا۔ یہ بعد میں اپنی توانائی بڑھانے کی خصوصیات کی وجہ سے محنت کش طبقے کے لئے ناشتے کا باقاعدہ ڈش بن گیا نہاری کے ساتھ کسی قسم کی روٹیاں بنائی جاتی تھی جن میں سب سے مشہور دودھ والی روٹی ہے
قیام پاکستان کے وقت لاہور اور کراچی میں دہلی سے بہت عمدہ دہلی کے پکوان بنانے والے آئے
لاہور میں تو صرف سوداگران دہلی والوں کے لیے دہلی کے خانسامے مختص ہوا کرتے تھے اس دور میں کشمیر سے واضوان بھی آئے یعنی ماسٹر شیف مگر افسوس وہ لاہور میں چل نہ سکے
لاہور میں استاد سمیع باورچی ، شیوفو بھائی ، استاد دبیر دلی پکوان بنانے میں بہت مقبول تھے حاجی نہاری ملک نہاری وارث نہاری شاھد نہاری محمدی نہاری یہ سب بعد کے ذائقے ہیں لاہور کی سوداگران برادری کی شادیوں کی تاریخ کا تعین باورچی کی تاریخوں کے مطابق رکھا جاتا تھا مجھے کئ سالوں پہلے سوداگران کی شادی اٹینڈ کرنے کا موقع ملا جو ساڑھی کا کاروبار کرتے ہیں کیا عمدہ اسیٹو اور طرح طرح کے کھانے روغنِ جوش کا نام لکھتے ہی منہ میں پانی آ چکا ہے
کسی زمانے میں چاچا مہر بسا کے ہوٹل نعمت کدہ کے ایک شیف سے بہترین کھانے پکوانے کا شرف بھی رہا ہے جو دہلی والوں کے ہاں ملازم تھے اب تو لاھور میں ذائقہ ختم ہوتا جا رہا ہے مصالحہ کی بھرمار نے اصل ذائقہ چھین لیا ہے اور رنگ برنگے باورچیوں نے لاہوریوں سے خوش خوراکی چھین لی چند ایک باورچی جو پرانے کام کرتے چلے آرہے ہیں بہت ہی محدود پیمانے پر اعلی کوالٹی کے کھانے تیار کر کے دیتے ہیں میں کوشش کر رہا ہوں کہ ایسے استادوں کی حوصلہ افزائی کر سکوں جو سوشل میڈیا سے دور ہیں اور یہی ان کے لئے اچھا ہے ۔۔۔
یاد رکھیں نہاری کے لئے بونگ اور بہترین مچھلی کا گوشت ہی سے بہترین ذائقہ بن سکتا ہے مگر افسوس بہت ہی مشہور دکانوں پر لال بوٹی کے گوشت میں نہاری بک رہی ہے اور لوگ مزے سے کھا رہے ہیں نا کبھی کسی نے یہ پوچھنا گوارا کیا کہ مچھلی کا گوشت ہے کہ نہیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں