ڈاکٹر انور سجاد 27 مئی 1935ء کو چونا
منڈی لاہور میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام سیّد محمد سجاد انور علی بخاری تھا۔ ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد طبی تدریس کے لئے لاہور کے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں داخلہ لیا اور ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی لیکن طبیعت اور رجحان فنون لطیفہ کی طرف مائل تھا۔ ڈاکٹر انور سجاد کی مشہور تصانیف میں چوراہا، جنم کا روپ، خوشیوں کا باغ اور نیلی نوٹ بک شامل ہیں۔ وہ صدا کاری اور اداکاری کا بھی شوق رکھتے تھے۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے لئے ڈرامے لکھے۔ ان کے لکھے ٹی وی ڈرامے ناظرین میں کافی مقبول ہوئے۔ انہوں نے طویل دورانیہ کے کھیل بھی تحریر کئے جن میں پکنک، رات کا پچھلا پہر، کوئل، صبا اور سمندر اور یہ زمیں میری ہے قابل ذکر ہیں۔ ان کی ایک ڈرامہ سیریز ’’زرد دوپہر‘‘ نے بہت شہرت پائی۔ زرد دوپہر انور سجاد کی ایسی تخلیق ہے
کہ انہوں آج سے 2 دہائی پہلے شریف خاندان کی عکاسی اس ڈرامے میں کر دی تھی۔ اس وقت اس ڈرامے کی اتنی سمجھ نہیں آئی تھی ۔ لیکن آج جب پاکستان کے حالات اور گزشتہ دو سال میں ہونے والے واقعات پر نظر ڈالیں تو ڈاکٹر انور سجاد کی دور اندیشی کو داد دئیے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔ کہ کیسے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ امریکی حکم پر نااہل بد دیانت لوگوں کو سیاست میں لانچ کرتی رہی ہے اور آج بھی کررہی ہے۔ جو بعد میں پاکستان میں امریکی و غیر ملکی مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ اور کبھی ان کو نظام میں کرپشن ، بد عنوانی ، لوٹ مار پر سزا ہو جاۓ تو کیسے ان کو پاکستان سے باہر بھیج کر بچا لیا جاتا ہے اور دوبارہ وطن عزیز کو تباہی و برباد کرنے کے لیے کرپٹ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر ملک پر مسلط کر دیا جاتا ہے۔ پاکستان کا عدالتی نظام جس کا برہم 74 سال قائم رہا وہ نظام انصاف اپنے سارے کپڑے اتارے عوام کے سامنے کھڑا ہو گیا کہ کیسے ماضی میں اور آج بھی مفاد پرست ججز نے انصاف کا قتل عام کیا اور ملک کو تباہی سے دو چار کرنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان کی اعلی عدالتوں میں عالمی اسٹیبلشمنٹ کے مہرے موجود رہے اور آج بھی ہیں۔ اس ڈرامے میں ایک شخص کو اقتدار میں لایا جاتا ہے اس کو طاقت اور اختیارات سونپے جاتے ہیں اور پھر اس کو بلا کر بتایا جاتا ہے کہ ہم کیسے تم جیسے لوگوں کو بناتے ہیں اور تمہاری آڑ میں ہمارے بد نما چہرے چھپا رہتا ہے۔ لیکن آج وہ بد نما چہرے بے نقاب ہو چکا ہے۔ پورے کا پورا نظام برہنہ ہو گیا ہے۔ کیسے ملک مہربان کے مہربان اس کو سیاست میں لاتے ہیں اور جب اس کا نقاب اترنے لگتا ہے تو اس کو ملک سے باہر بھیج دیا جاتا ہے۔ اس ڈرامے کو زرا غور سے آج کے نوجوان ضرور دیکھیں۔ یہ یو ٹیوب پر مل جاۓ گا۔ اس سارے کھیل میں صحافت کی طوائفوں نے بھی اپنا بھرپور حصہ ڈالا ہے۔ کبھی چند ٹکوں کے عوض قلم بیچا کبھی مراعات کی خاطر قلم کو گروی رکھنا اور کبھی شہرت پانے کے لیے اسٹیبلشمنٹ اور کرپٹ سیاسی اشرافیہ کے تلوے چاٹے۔ خاص طور پر آج کے دور میں جب الیکٹرانک میڈیا اور ڈیجیٹل میڈیا بام عروج پر ہیں۔ کچھ لوگ آئین شکن کرپٹ سیاسی اشرافیہ کے ساتھ ملاقات توں اور تصویریں اور ویڈیوز بنا کر سمجھتے ہیں کہ انہوں نے بہت شہرت حاصل کر لی ہے ان کے تعلقات بڑے بڑے لوگوں سے ہیں۔ شہرت کا نشہ ہی ایسا ہے۔ کہ اس کے لیے ضمیر اور قلم تین رکھنا ان کو گھاٹے کا سودا نہیں لگتا۔ ناقدین کے مطابق انور سجاد کے افسانے ہوں یا ڈرامے، ان میں استعاراتی طرزِ فکر کو انتہائی مہارت اور کام یابی سے برتا گیا ہے۔ ان کی تحریریں گہرائی اور وسعت کی حامل اور کثیرالجہت ہوتی تھیں۔
ڈاکٹر انور سجاد لاہور آرٹس کونسل کے چیئرمین بھی رہے۔ 1989ء میں حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے بھی نوازا۔ ڈاکٹر انور سجاد 6 جون 2019ء کو لاہور میں وفات پا گئے اور وہیں آسودہ خاک ہیں۔
168