159

سورہ العصر اور سیکنڈ لاء آف تھرموڈائنامکس

Spread the love

(تحقیق و تحریر: عمران حیدر تھہیم)

فزکس کے ایک انتہائی ادنیٰ طالبعلم کی حیثیت سے میرا شُمار اُن لوگوں میں ہوتا ہے جو سائنس کو مذہب سے متصادم نہیں سمجھتے۔ میری رائے میں سائنسی علوم کسی نہ کسی درجے پر دراصل اُسی divine oneness کی طرف لیجاتے ہیں جسکا اظہار مذہب مختلف انداز میں کرتا ہے۔ اگر دینِ اسلام کی بات کی جائے تو ہمارا دین مُکمّل اور آفاقی ہے اور قرآنِ مجید وہ آفاقی کتاب ہے جس نے سائنس کو بھی ایک ذیلی علم کے طور پر اپنے اندر سمویا ہوا ہے۔

زیرِ مطالعہ آرٹیکل میں راقم الحروف نے جسارت کی ہے کہ فزکس کے قوانین خصوصاً سیکنڈ لاء آف تھرموڈائنامکس کو سورہ العصر کے تناظر میں پرکھا جائے۔

آئیے دیکھتے ہیں کہ اگر سادہ لفظوں میں سیکنڈ لاء آف تھرموڈائنامکس کو بیان کیا جائے تو اس کے مطابق کائنات کے اندر موجود کوئی بھی مادی سسٹم دراصل آرڈر سے ڈس آرڈر یعنی ترتیب سے بےترتیبی کی طرف رواں ہے اور اس بے ترتیبی کو وقت کے گُزرنے کے ساتھ ساتھ کسی حد تک کم تو کیا جا سکتا ہے لیکن اسے ریورس نہیں کیا جاسکتا۔ جیسے پانی کے اندر کسی بھی خاص ترتیب سے رنگوں کی آمیزش کرلیں تو اُس آمیزش کو undone نہیں کیا جا سکتا۔ لکڑی جل کر کوئلہ بننے کے عمل کو آہستہ تو کیا جاسکتا ہے لیکن سوختہ لکڑی کی راکھ کو واپس لکڑی نہیں بنایا جا سکتا۔ اس انرجی، فریکوئینسی اور وائبریشن پر مُشتمل کائنات کے اندر ہماری اس تھری ڈائمینشنل دُنیا کا سفر بھی ہمیشہ سسٹم کے آرڈر سے ڈس آرڈر کی طرف ہی گامزن رہے گا۔ اگر خالصتاً فزکس کی زبان میں بیان کیا جائے تو سیکنڈ لاء آف تھرموڈائنامکس کی تعریف کچھ یُوں ہوگی:

“The total entropy of a system either increases or remains constant in any spontaneous process; it never decreases.”

فزکس کی اصطلاحات سے نابلد دوستوں کےلیے entropy کی وضاحت بھی کرتا چلوں کہ
“Entropy is the measure of the disorder of a system.”
یعنی کسی بھی سسٹم کے اندر وقوع پذیر ہونے والے ڈس آرڈر یا بےترتیبی کو entropy کہتے ہیں۔
بات کو مزید سمجھنے کےلیے آئیے فرسٹ لاء آف تھرموڈائنامکس کا بھی اعادہ کر لیتے ہیں جس کے مطابق
energy cannot be created or destroyed; it can only be converted from one form to another.
یعنی توانائی کو نہ تو پیدا کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی ختم کیا جاسکتا ہے اسے صرف ایک حالت سے دوسری حالت میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ یعنی کائنات کی مجموعی توانائی ہمیشہ مستقل رہتی ہے اور بڑھتی یا کم نہیں ہوتی۔

چنانچہ فزکس کے ان دو اہم قوانین کی رُو سے یہ بات ایک مُسلّمہ حقیقت بن چکی کہ یہ کائنات جو دراصل مادہ اور توانائی کے باہمی ربط اور ملاپ سے بنی ہے اس کے اندر مادہ اور توانائی صرف حالتیں بدلتے ہیں اور مجموعی توانائی مستقل رہتی ہے، کم یا زیادہ نہیں ہو سکتی اور جس بھی سسٹم کے اندر انرجی کارفرما ہے وہ وقت گُزرنے کے ساتھ ساتھ ہمیشہ آرڈر سے ڈس آرڈر کی طرف سپیس میں محوِ سفر رہے گا۔
پس ہر مادی شے فنا کہ طرف گامزن ہے۔

اب آتے ہیں اِس کائنات کی مختلف پراڈکٹس یعنی مخلوقات کی طرف۔ جس میں ہم انسان بھی شامل ہیں۔ سائنس کی رُو سے کائنات کے اندر موجود اب تک دریافت شُدہ تمام 118 عناصر elements میں سے 92 قُدرتی یعنی natural elements ہیں اور باقی 26 مصنوعی یا artificial elements ہیں۔ انسانی جسم ان 92 قدرتی عناصر میں سے کُل 21 عناصر سے مِل کر بنا ہے جن میں سے 6 عناصر آکسیجن، نائٹروجن، کاربن، کیلشیئم اور فاسفورس مل کر انسانی جسم کا 99 فیصد بناتے ہیں اور باقی 1 فیصد جسم 15 دیگر عناصر سے مِل کر بنا ہے۔ انسانی جسم کُل تقریباً 27^10×7 (7 ضرب 1 کے ساتھ 27 زیرو) ایٹموں سے مِل کر بنا ہے اور سائنس کی رُو سے اتنی تعداد کے عناصر اور اتنی تعداد کے ایٹموں کی ایک خاص ترتیب کے ساتھ بنی ہوئی کوئی دیگر پراڈکٹ یا تخلیق اس شکل میں ڈھال کر پیدا کرنا ناممکن ہے۔ لہٰذا سائنس کے مطابق مادہ اور توانائی کی بنی ہُوئی فطرت کی وہ پراڈکٹ جو سب سے بہترین ڈیزائن میں ڈھل کر وقوع پذیر ہوئی وہ انسان ہی ہے۔
اِسی سائنسی حقیقت کو قرآن نے یُوں بیان کیا:
“لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم”
“ہم نے انسان کو سب سے بہترین ڈیزائن میں ڈھال کر پیدا کیا۔”
بات کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے اب یہ بات آسانی سے کہی جاسکتی ہے کہ اس کائنات کی سب سے سمارٹ پراڈکٹ جو کہ مادہ اور توانائی پر مُشتمل ہے انسان ہی ہے اور انسان اس تین جہتی مادی دُنیا (تھری ڈائمینشنل ورلڈ) کے اندر low entropy سے high entropy کی طرف جارہا ہے اور سیکنڈ لاء آف تھرمو ڈائنامکس کی رُو سے آرڈر سے ڈس آرڈر پر جا کر مُنتج یا disintegrate ہوگا۔
یہ بات سورہ العصر میں یُوں بیان ہوئی ہے:

” و العصر، ان الانسان لفی خُسر۔۔۔”

“قسم ہے عصر کی، (یا عہدِ رواں کی یا ڈھلتی عُمر کی یا گُزرتے وقت کی) کہ انسان خسارے میں ہے۔”

لہٰذا اگر انسان سمجھتا ہے کہ وہ مادہ اور توانائی کے بقائے باہمی اور تبادلے کے ذریعے کائنات کو تسخیر کر لے گا تو وہ یقیناً بُھول میں ہے اور خسارے میں ہے۔ کیونکہ ہر مادی چیز increased entropy سے عبارت ہے۔

دیکھیے کس طرح فزکس کے سیکنڈ لاء آف تھرموڈائنامکس کا تمام فلسفہ سورہء عصر کی ایک آیت “ان الانسان لفی خسر” میں سمایا ہوا ہے۔ گویا ساری فزکس ایک ہی آیت کی تشریح ہے۔
اسی سورت کی اگلی آیت میں چار شرائط کا ذکر ہے کہ “مگر وہ لوگ نہیں جو ایمان لائے، عملِ صالح کرتے رہے، حق بات کی تاکید اور صبر کی تلقین کرتے رہے”۔
ان چاروں خصوصیات کی ماہیت غیر مادی ہے اس لیے اُسے فنا نہیں بلکہ دوام حاصل ہے۔ کیونکہ ایمان کسی مادے سے مل کر نہیں بنا، نہ ہی عملِ صالح کا کوئی یونٹ ہے، حق اور صبر بھی غیر مادی اکائیاں ہیں۔ ان چاروں خصوصیات کی پیمائش کا کوئی سائنسی پیمانہ بھی نہیں ہے۔ یعنی ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ایمان، عملِ صالح، حق یا صبر کتنے میٹر، لِٹر، کلوگرام یا جاؤل وغیرہ کا ہے۔ ان خصوصیات کا تعلق صرف human spirit سے ہے اور اب تک کی سائنس بھی یہی بتاتی ہے کہ انسانی رُوح اور انسانی شعور کو دوام حاصل ہے۔
عظیم مُسلمان مفکّر و مُجدّد حضرت شاہ ولی اللہ محدّث دہلوی کے مطابق اگر عظیم آفاقی کتاب قرآنِ مجید کا آفاقی پیغام صرف ایک سورت کے ذریعے سمجھنا ہو تو سورہء العصر کی آیات ہی کافی ہیں۔
میری ذاتی رائے میں اگر دیکھا جائے تو ساری پارٹیکل فزکس ایک ہی قانون یعنی سیکنڈ لاء آف تھرموڈائنامکس میں سمائی ہوئی ہے اور سیکنڈ لاء آف تھرموڈائنامکس کا سارا فلسفہ سورہ العصر کی دوسری آیت میں سمو کر خالقِ کائنات نے علمِ طبعیات کو قلوبِ انسانی پر مُنکشف کر دیا ہے۔

و ما علینا الا البلاغ۔۔۔

عمران حیدر تھہیم

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں