87
Spread the love

ُPDM کا مہنگائی مارچ ملتوی۔ کیا عمران خان اپنی حکومت کا آ خری بجٹ پیش کر پائیں گے؟ کیا موجودہ اسمبلی اپنی مدت پوری کر سکی گی؟ کیا عمران خان کے خلاف اپوزیشن کی تحریک کامیاب ہو سکے گی؟ سیاسی پنڈت پہلے بھی عمران خان کے جانے کی تاریخیں دیتے آئے ہیں اور اب انہوں اپنی تاریخ بڑھا کر مارچ تک لے گئے ہیں۔ ُPDM نے 23 مارچ کو مہنگائی مارچ کا آغاز کرنا تھا اب وہ مارچ ملتوی ہونے جا رہا ہے۔ کے پی میں دوسرے مرحلے بلدیاتی انتخابات مارچ میں منعقد ہونے جار ہے ہیں۔ اپوز یشن کی جماعتوں کو یقین ہے کہ وہ خیبر مختون خوا بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے زیادہ کامیابی حاصل کریں گی۔

پنجاب کے بلدیاتی انتخابات تاخیر کا شکار ہو گئے ہیں اب پنجاب میں بلدیاتی انتخابات اپر یل یا مئی میں منعقد ہونے کا امکان ہے۔ مسلم لیگ ن کے سیاسی مستقبل کا انحصار پنجاب کے بلدیاتی انتخابات پر ہے۔ پنجاب کے بلدیاتی انتخابات کے لیے مسلم لیگ ن کی تیاری ہے جبکہ تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کی تیاری نہیں ہے۔ اس تما م صورتحال میں اپوزیشن تحریک مئی یا جون کے آ خر تک جانے کا مکان ہے۔ ایک صفحہ پھٹنے کی جو امید تھی اب وہ بر نہیں آ تی۔ میڈیا اور سیاست کے پنڈتوں کو امید ہے کہ نئے آرمی چیف کے تقرری پر عمران خان اور جی ایچ کیو میں تناؤ ہو نے کا امکان ہے جیسے ڈی جی آ ئی ایس آئی کے تقرری کے معاملے پر ہوا تھا۔

موجودہ آ رمی چیف نومبر 2022 میں رئیٹائر ہو جائیں گے۔ تما م پیشین گوئیاں اس امکان کی بنیاد پر ہیں۔کہ شاید عمران خان کوئی ایڈونچر کریں گے یا فوج ان کے ہاتھ پاؤں باندھ دے گی۔ عمران خان کی مقبولیت کو جو دھچکا مہنگائی کی وجہ سے لگا ہے اس کی وجہ سے اس وقت وہ استعفی دینے یا اسمبلیاں توڑنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ نوز شریف اس وقت دباؤ سے نکل چکے ہیں اور ایون فیلڈ ریفرنس میں اپیل کا فیصلہ مئی یا جون تک ہو جائے گا، اس صورتحال میں نواز شریف ڈیل نہیں کریں گے۔ ان ہاؤس تبدیلی کی جو کوشش بلاول، شہباز شریف اور آصف زرداری کر رہے تھے لگتاہے اس کو پذیرائی نہیں ملی ہے۔

عمران خان کے خلاف عدم اعتما د اسٹیبلشمنٹ کے بغیر ممکن نہیں اور اگر اپوزیشن اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ڈیل کرتی ہے تو اس کا تمام بیانیہ ڈوب جائے گا۔ قبل از وقت انتخابات پیپلز پارٹی کے حق میں نہیں ہوں گے۔ اگر پیپلز پارٹی یہ سوچ رہی ہے کہ ان ہاؤ س تبدیلی کے ذریعے کچھ وقت ملنے سے وہ اپنے لیے گراؤنڈز بڑھا سکے گی تو ایسا نہیں ہو گا۔ پنجاب میں پیپلز پارٹی کی واپسی کا انحصار اس بات پر ہے کہ پی ٹی آئی کتنی جگہ چھوڑتی ہے۔ جیسا کہ لاہور کے ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی امیدوارنہ ہونے سے پیپلز پارٹی کے امیدوار کو 33,000 ووٹ ملے۔ اپوزیشن اور میڈیا دونوں جی ایچ کیو کی طرف اس لیے دیکھتے ہیں کہ ان کے خیال میں تمام معاملات فوج طے کرتی ہے۔

ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری اور کے پی میں بلدیاتی انتخابات کے بعد اپوزیشن کا خیال ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان ایک پیج پر نہیں رہے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں سیاست دان فوج کے ساتھ مل کر اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف کام کرتے رہے ہیں۔ اگر اپوزیشن اسٹیبلشمنٹ کی مد د سے بر سر اقتدار آتی ہے تو پھر ان کی جگہ وہی ہو گی جو عمران خان کی ہے یعنی سلیکٹیڈ۔ عمران خان کی سیاسی بقا ا سی میں ہے کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ پر الزامات لگاتے رہیں۔ یہ سال بے یقینی کا سال رہے گا۔اگلے بجٹ کے بعد امکان ہے کہ اپوزیشن کو مہنگائی کے خلاف تحریک چلانے کے لیے زیادہ وجوہات میسر ہوں گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں