89

لکھنؤ اور لڑائی ……..

Spread the love

محمد اظہار انصاری
جانوروں اور چوپایوں کی لڑائی کی روایت بہت قدیم ہے۔ رومیوں میں یہ ذوق پایا جاتا تھا۔اہلِ یورپ کے زیرِ اثر ہندوستان میں اس کا آغاز لکھنؤ سے ہوا۔ لکھنؤ نے اس سلسلے کو استحکام بخشا اور کچھ ایسی نئی چیزوں کا اضافہ کیا جو لکھنؤ ہی کے ساتھ خاص ہے۔ درندوں اور چوپایوں میں شیر، چیتے، تیندوے، گینڈے، ہاتھی، اونٹ، گھوڑے، مینڈھے اور بارہ سنگھے جیسے جانوروں کو لکھنؤ دربار میں کبھی تو باہم لڑایا جاتا تھا اور کبھی مخالف جنس سے۔مولانا عبد

الحلیم شرر لکھتے ہیں: ’’درندوں کے لڑانے کا مذاق قدیم ہندوستان میں کہیں یا کبھی نہیں سنا گیا تھا۔ یہ اصلی مذاق پرانے رومیوں کا تھا جہاں انسان اور درندے کبھی باہم اور کبھی ایک دوسرے سے لڑائے جاتے تھے۔ مسیحیت کے عروج پاتے ہی وہاں بھی یہ مذاق چھوٹ گیا تھا مگر اب تک اسپین میں اور بعض دیگر ممالک ِ یورپ میں وحشی سانڈ باہم اور کبھی کبھی انسانوں سے لڑائے جاتے ہیں۔ لکھنؤ میں غازی الدین حیدر بادشاہ کو غالباً ان کے یورپین دوستوں نے درندوں کی لڑائی دیکھنے کا شوق دلایا، بادشاہ فوراً آمادہ ہو گئے۔‘‘یہ سلسلہ غازی الدّین حیدر کے عہد (1814-1827) تک بڑی شان و شوکت سے جاری رہا۔ بادشاہ نے اس خوب صورت مشغلے کے لیے موتی محل کے پاس دو نئی کوٹھیاں تعمیر کرائیں، ایک مبارک منزل، دوسری شاہ منزل۔ ٹھیک اسی کے بالمقابل دریا کے دوسرے کنارے پر ایک وسیع و عریض سبزہ زار خطے کو منظم کیا گیا تھا، اس میں جانوروں کے الگ الگ کٹہرے تیار کرائے گئے تھے اور اسی

میں جانوروں کے لڑنے کا میدان بھی ہموار کیا گیا تھا۔ شاہ منزل سے بادشاہ جانوروں کی خوں ریز لڑائیوں کو دیکھ کر لطف اندوز ہوتا تھا۔آج کے تناظر میں میدان اور کوٹھیوں کے مجموعے کو اس زمانے کا اسٹیڈیم کہہ سکتے ہیں اور ایک طرح سے اس میدان کو چڑیا گھر بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ آج یہی میدان نشاط گنج کہلاتا ہے۔ (مقتبس: قدیم لکھنؤ کی آخری بہار)
جانوروں اور چوپایوں کی لڑائیاں تین طرح سے ہوتی تھیں۔ اوّل تو ہم جنس جانوروں کو باہم لڑایا جاتا تھا اور کبھی غیر جنس کو ایک دوسرے سے لڑایا جاتا اور کبھی درندوں ہی میں شیر کو تیندوے اور چیتے سے بھی لڑا دیا جاتا۔ اسی طرح کبھی ہاتھی کو ہاتھی سے، مینڈھے کو مینڈھے اور کبھی گھوڑے کو بھنسے اور ہاتھی کو گینڈے سے بھی بھڑا دیا جاتا۔اس سلسلے میں سب سے زیادہ آزمائشوں سے بے چارے شیر کو گزرنا پڑتا، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاہانِ اودھ نے اپنی ذمہ داری جنگل کے بادشاہ کے کاندھے ڈال دی تھی۔ اس لیے شیر کو کبھی شیر سے، کبھی چیتے، تیندوے، ہاتھی اور کبھی گینڈے اور گھوڑے سے لڑایا جاتا، لیکن لطف کی بات یہ ہے کہ وہ اوّل الذّکر چاروں سے شکست کھانے کے ساتھ ساتھ گھوڑے سے بھی ہار جاتا۔جنگل کے اس بادشاہ کی شکست خوردگی کا عالم بھی وہی تھا جو لکھنؤ کے شاہوں کا تھا۔
( تحقیقی مضمون سے چند پارے)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں