داؤد رہبر
1939ء میں والد مرحوم نے ایک ریڈیو خریدا۔ جرمنی کی کمپنی ٹیلی فنکن کا بنا ہوا ریڈیو تھا۔جس روز آیا، اس سے اگلے روز اتوار تھا۔ صبح برآمدے میں ایک میز پر رکھا گیا، گھنڈی گھمائی گئی تو کسی اسٹیشن سے کوئی مرہٹہ بائی للت کا خیال گا رہی تھی۔ اوّل اوّل والد مرحوم خود ہی ارشاد فرماتے رہے کہ یہ پروگرام سنو، وہ چیز سنو۔ سوائے پکے راگ کے کوئی چیز سننے کی اجازت نہ تھی، چسکا لگنے میں
دیر نہ لگی۔چند مہینوں میں سب فن کاروں اور جھنکاروں سے آشنائی ہو گئی۔ بائیوں اور بھائیوں کے نام یاد ہو گئے۔ مہینے میں دو بار آل انڈیا ریڈیو کےپروگرام کا رسالہ آتا تھا، اس کے آتے ہی ہم سب بھائی بہن اس کے ایک ایک صفحے پر نظریں دوڑا کر خاص پروگراموں پر نشان لگا دیتے تھے اور پھر التزام کے ساتھ سب نفائس الانفاس سنے جاتے تھے۔1939ء سے 1949ء تک یعنی دس سال دلّی، بمبئی، لاہور اور لکھنؤ کے ریڈیو اسٹیشنوں سے جتنی استادانہ موسیقی نشر ہوئی، بیش تَر خاکسار نے کان لگا کر سنی۔ سال میں تین سو چونسٹھ دن ہوتے ہیں، اگر میں کہوں کہ ہر معروف راگ کو میں نے سیکڑوں مرتبہ سنا تو مبالغہ نہ ہو گا۔ایک ہی راگ کو مختلف گھرانوں کی مردانہ اور زنانہ گائیکی میں بار بار سنا اور پھر اسی کو ستار، بین، سارنگی، شہنائی اور بانسری پر سننا نصیب ہوا۔ اس طرح باغ و راغ کی روشوں کا نقشہ سامنے آ گیا اور ساٹھ ستّر راگ بخوبی رگ و پے میں بس گئے۔دس سال کے اس زمانے میں جو اچھی تان راقم نے سنی، اس کی نقل کی کوشش ضرور کی۔ گھرانہ دار گویّوں کے ہاں یہ ضابطہ ہے کہ بچپن اور لڑکپن میں گھرانے سے باہر کے کلا کاروں کا گانا بجانا سننے کی اجازت نہیں ہوتی تاکہ اسلوب خلط ملط ہونے سے بچا رہے۔ گھرانوں کی موسیقی کا اپنا اپنا مزاج ہے۔ ایک ہنڈیا کے مسالے دوسری ہنڈیا کے لیے نہیں ہیں۔