واشنگٹن ڈی سی( ویب ڈیسک ) مبینہ طور پر صارفین کا لوکیشن ڈیٹا دھوکے سے جمع کرنے اور مختلف اداروں کو مہنگے داموں فروخت کرنے پر امریکا میں چار اعلیٰ سرکاری وکیلوں نے گوگل کے خلاف مقدمہ کردیا ہے۔ ان میں واشنگٹن ڈی سی، انڈیانا، ٹیکساس اور واشنگٹن اسٹیٹ کے اٹارنی جنرلز شامل ہیں جن کا کہنا ہے کہ 2018 میں گوگل کے خلاف صارفین کا ڈیٹا دھوکے سے جمع کرنے اور بیچنے کے الزامات سامنے آنے کے بعد انہوں نے تین سال تک معاملے کی تفتیش کروائی جس سے یہ الزامات درست ثابت ہوئے۔ بتاتے چلیں کہ یہ الزامات 2018 میں پہلی بار ایسوسی ایٹڈ پریس نے اپنی ایک رپورٹ میں لگائے تھے۔ مذکورہ رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ اسمارٹ فونز کےلیے گوگل اینڈروئیڈ آپریٹنگ سسٹم، گوگل میپ، گوگل کروم اور دوسری تمام گوگل مصنوعات و خدمات میں لوکیشن سروس بند کرنے کے باوجود گوگل خفیہ طور پر اپنے صارفین کے راستوں اور ان مقامات پر نظر رکھتا ہے کہ جہاں وہ آنا جانا کرتے ہیں۔ اس طرح گوگل اپنے صارفین کو دھوکے میں رکھتے ہوئے مسلسل ان کا لوکیشن ڈیٹا جمع کرتا رہتا ہے۔ بعد ازاں یہی ڈیٹا مہنگے داموں میں مختلف کمپنیوں کو بظاہر ’’ذہین اشتہار بازی‘‘ کےلیے فروخت کیا جاتا ہے۔
صارفین کا لوکیشن ڈیٹا ڈھوکے سے فروخت کرکے گوگل مبینہ طور پر سالانہ اربوں ڈالر کما رہا ہے۔ گوگل کے خلاف یہ مقدمہ واشنگٹن ڈی سی سپریم کورٹ میں دائر کیا گیا ہے اور اگر عدالتی تفتیش میں بھی گوگل پر لگائے گئے الزامات درست ثابت ہوئے تو گوگل پر اربوں ڈالر کا جرمانہ ہوسکتا ہے۔ اس سے پہلے آسٹریلیا اور امریکی ریاست ایریزونا میں بھی گوگل کے خلاف اسی طرح کے مقدمات دائر کیے جاچکے ہیں۔ دوسری جانب گوگل نے ان تمام الزامات سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ سب باتیں پرانی اور غلط معلومات کی بنیاد پر کی جارہی ہیں جبکہ گوگل اپنے صارفین کے تخلیے (پرائیویسی) کا مکمل احترام کرتا ہے۔ واضح رہے کہ صرف لوکیشن ڈیٹا کی خرید و فروخت کے عالمی کاروبار کا موجودہ حجم 10 سے 12 ارب ڈالر سالانہ ہے۔ اندازہ ہے کہ مسلسل اضافے کے بعد 2027 تک یہ حجم 31 ارب ڈالر سالانہ تک پہنچ جائے گا۔
58